پاک بھارت مذاکرات کیلئے کاوشوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، بھارت اورپاکستان کے درمیان ایسے کسی بھی باہمی مذاکراتی عمل کی حمایت کر ینگے جو دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خصوصاًمسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کئے جائیں گے

سیکرٹری جنرل جموں کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی پریس کانفرنس

منگل 2 فروری 2016 22:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 فروری۔2016ء) سیکرٹری جنرل جموں کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کے لئے کاوشوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ منگل کو یہاں نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ جموں کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مہذب قوموں نے مذاکرات کو ایک قابل اعتماد ذریعہ کے طور لیا ہے ۔

ہم وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے پاک بھارت مذاکرات کیلئے کوششوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، جب وزیر اعظم محمد نواز شریف نے امن کیلئے پہل کرتے ہوئے 5جولائی 2013ء کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کیلئے خط لکھا اور اسی تناظر میں وزیر اعظم پاکستان کا نئی دہلی کا دورہ اور بھارتی وزیر اعظم نرنیدر مودی کا دورہ لاہور اور ٹریک 2سفارت کاری دراصل علاقے کے امن اور دونوں ملکوں کی عوام کی فلاح و بہبود کے حق میں ہے، تاہم ٹریک2سفارتکاری میں شفافیت کا فقدان ہے اور عوامی، اعتماد اور دیگر عوامل اپناحصہ ادا کرنے سے قاصرہیں۔

(جاری ہے)

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں اور 70ویں اجلاسوں کے دوران کشمیر کے سوال پر پاکستان کی حکومت اور سیاسی قیادت کی طرف سے جو موقف اختیار کیا گیا ہم اسے بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت کی طرف سے بھی کشمیر پر اپریل2014ء میں یوم شہداء کے موقع پر ااور بعد ازاں لندن میں رائل یونائیٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ برائے دفاع (RUSI)میں اکتوبر 2015ء میں جاندار موقف اختیار کرنے کو بھی سراہتے ہیں۔

نذیر گیلانی نے کہاکہ ہم حکومت پاکستان کے اس بروقت فیصلے کو بھی سراہتے ہیں 7جنوری 2016ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے صدر کوتحریری طور باور کرایا گیا سیکورٹی کونسل مسئلہ کشمیر کو اپنی فہرست میں برقرار رکھے جسے منہا کردیا تھا۔JKCHR بھارت اور پاکستان کے درمیان ایسے کسی بھی باہمی مذاکراتی عمل کی حمایت کرے گی جو دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل ،خصوصامسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کئے جائیں گے۔

یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ باہمی مذاکرات اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اورمسئلہ کشمیر کے قانونی پہلوؤں سے مطابقت رکھتے ہوں اور اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادوں میں بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے دو فریق ہیں اور جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے حق خود ارادیت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کے تحت بھارت نے جموں و کشمیر کے عوام اور جموں و کشمیر کی حکومت کی اندرونی خودمختاری کے تحفظ کی درخواست کی تھی۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہاں تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں (AIR1953)ماگرے سنگھ بمقابلہ پرنسپل سیکرٹری ’’مسئلہ کشمیر کی اندرونی خود مختاری سے متعلق کیس ‘‘میں چیف جسٹس جانکی ناتھ وزیر اور جسٹس شامیری کے مارچ 1953ء کے فیصلے کوآج 62سال بعد 10اکتوبر2015 ء کو جموں کشمیر ہائی کورٹ نے جسٹس حسنین مسعودی اور جسٹس جنک راج کوتوال پر مشتمل بنچ نے برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر اندورنی خودمختاری کا حق رکھتی ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کی خوداختیاری کی نمائندگی فی الوقت حریت قیادت(متحدہ) جو 31جولائی 1993ء میں وجود میں آئی تھی اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بیرون ممالک موجود کشمیری قیادت کررہی ہے۔ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اگست1947ء میں جموں کشمیر کی حکومت سے معاہدہ قائمہ کے تحت ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان(UNCIP) کی قرار دادوں کے تحت، پاکستان بطور اقوام متحدہ کے رکن ملک اور مسئلہ کشمیر کے ایک فریقی کی حیثیت سے اہم ذمہ داریاں رکھتا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم پر بطور چیئرمین آزاد جموں و کشمیر کونسل کشمیری عوام اور مسئلہ کشمیر سے متعلق آئینی ذمہ داریاں ہیں۔ حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں UNCIP قرار ادادوں کے تحت آزاد جموں و کشمیر ایکٹ 1974ء میں متعین کی گئی ہیں اور جب تک ریاست کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ، پاکستان کا جمہوری کردار آئین پاکستان کی شق 257میں متعین کیا گیا،جموں کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کی ان ذمہ داریوں سے متعلق دسمبر1992ء کی رٹ پٹیشن کا تفصیلی فیصلہ کی آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ کے فل بینچ نے اپریل 1999ء میں دیا تھا۔

جموں و کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق بڑے ادب سے حکومت پاکستان سے استدعا کرتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں رہنے والے کشمیری عوام خصوصا وادی کے رہنے والے کشمیریوں کی فلاح و بہود میں تسلسل اور ربطہ ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں باہمی مذاکرات کے عمل میں کوئی تاخیر ان کیلئے مشکلات کا باعث نہیں بننا چاہئے۔کشمیری عوام جو غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اس میں 9.4فیصد سے 10.35فیصد تک اضافہ کا فوری نوٹس لیا جانا چاہئے۔

بھارتی محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں غربت کی لیکر سے نیچے گھرانوں کی تعداد4.17لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔دسمبر 1944 میں مراکش میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس کی کشمیر سے متعلق قرار اداد کے ایٹم نمبر 10اور 11 کے مطابق ، کشمیری عوام کیلئے فوری طور پر انسانی اور ترقیاتی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی میں ایک فوری ریفرنس پیش کیا جائے جس میں توجہ دلائی جائے کہ بھارتی فوج جو اکتوبر 1947ء میں ریاست میں بطور ماتحت فورس داخل ہوئی تھیاور ریاست میں اسکی ذمہ داریاں بھی متعین ہیں اور بعد ازاں اقوام متحدہ ، سیکورٹی کونسل کی 21اپریل 1948ء کی قرار داد کے تحت بھارتی افواج کو اس کی تعداد رویے اور مقام قیام تک محدود اور پابند کردیا گیا، اور اب بھارتی فوج کشمیری عوام کے ساتھ ایک جنگ میں ملوث ہے اور ایک نسل کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔

ایک غیر ریاستی (اجنبی) ہندو فوجی ایک اکثریتی مسلمان علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے۔ 31مارچ 1959ء کو بھارتی حکومت نے ریاست جموں کشمیر کی ایسی حکومت ، جو ریاست کے صرف ایک حصہ کی نمائندگی کرتی ہے کو مجبور کیا کہ وہ بھارتی شہریوں کوریاست میں داخلے کیلئے ویزا یا اجازت نامہ سے مثنیٰ قرار دے، یہ کشمیریوں کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے کہ اپریل 1959سے اب ایک بھارتی شہری کشمیری عوام کے حق سفر کو مانیٹر کررہا ہے۔

اس مسئلہ پر اقوا م متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی توجہ دلانے کی ضرورت ہے یہ کہ بھارت کا یہ رویہ 21اپریل 1948 اور 30مارچ 1951ء کی اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جس کا فوری نوٹس لیا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے رابطہ کیا جائے اور مطلع کیا جائے کہ جموں وکشمیر کی سرینگر حکومت بطور ایک ذمہ دار اور غیر جانبدار حکومت ناکام ہوگئی ہے اور جموں کشمیر کی اسمبلی بھی استصواب رائے انتظامیہ کے قیام سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئی ہے ۔

اقوام متحدہ کے ساتھ توہین آمیز رویہ پر بھارت اور جموں کشمیر کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس ICJ سے رائے طلب کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے بھارت کو چار نکاتی ایجنڈا جس میں علاقے کو غیر فوجی علاقہ بنانے کی تجویز ایک اہم قدم ہے، بھارت کو اس تجوز کو مزید آگے لیکر چلنا چاہئے۔کشمیری قیادت سے رابطوں کو استوار کرنے کے حوالے سے اسی جذبے کی آج ضرورت ہے جو 1964 میں کشمیریوں کے پہلے 9رکنی وفد کی پاکستان آمد پر جس شان اور وقار کا اظہار کیاگیا تھا، اس سلسلے میں باقاعدہ رابطوں اور بحث و تمحیص کی ضرورت ہے۔

اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اس بات کا بھی فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس کشمیر میں بڑی سرگرم ہے کہ اپنی دیگر معاون تنظیموں بشمول راشٹریا منسچ MRM، دریا گنج ، جمعیت علماء ہند اور 20تا30 دیگر این جی اوز کے نیٹ ورک کی مدد سے ریاست جموں و کشمیر میں ہندتوا کی تربیج کیلئے دباؤ ڈالا جائے۔1931میں مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کی تحریک کو کچلنے کیلئے آر ایس ایس نے ڈوگرہ مہاراجہ کشمیر کی مدد کیلئے وادی میں رضا کار ارسال کئے تھے، صورتحال کا تفاضہ ہے کہ حریت ، مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو مکمل حمایت فراہم کی جائے تاکہ آر ایس ایس اور MRMکے گٹھ جوڑ کو غیر موثر کیا جائے ۔

آزادکشمیر اسمبلی میں 12 مہاجرنشستوں کو آزاد کشمیر آئین ایکٹ 1974ء میں UNCIP قرار دادوں کے تحت متعین کی گی ذمہ داریوں کے مطابق مکمل نمائندگی دی جائے۔ گزشتہ56سالوں میں آزاد کشمیر حکومت ایکٹ 1960ء اور ایکٹ 1974ء کے تحت حق خود اختیار ی سے متعلق سوپنی گئی ذمہ داریوں میں پہلو تہی کرتی چلی آئی ہے۔ یہ غفلت آزاد کشمیر کی تمام حکومتوں کو غیر قانونی اور مشکوک بناتی ہیں۔

ان ذمہ داریوں سے معتلق ناکامی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی کابینہ کے وزراء اور قریبی ذرائع کو ہدایت کی ہے کہ بھارت کے خلاف ایسا کوئی بیان نہ دیا جائے جو حالیہ امن مذاکرات کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کرسکے۔ درحقیقت تاشقندمعاہدہ شق (iv) دونوں ملکوں کو اس سلسلے میں پابند کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس شق کے مطابق بھارت کے وزیر اعظم اور پاکستان کے صدر دونوں اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ دونوں جانب سے ایسے کسی پراپیگنڈہ کی نفی کی جائے جو کسی ملک کے خلاف ہو اسی طرح ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات میں مضبوطی کا باعث ہوں۔

ہم مودبانہ گزارش کے ساتھ توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح کی ہدایات مسئلہ کشمیر کی حقیقی روح اور عوامی شکایات کو متاثر نہیں ہونے دے گی اور نہ ہی بھارت کو اس بات کی رخصت ہونی چاہئے کہ وہ کسی اور محمد اخلاق کو مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں قتل کردے۔ جون19 تا23 1997 میں اسلام آباد میں پاک بھارت مذاکرات کے دوران دونوں ملکوں نے 8حل طلب مسائل کی نشاندہی کی اور دونوں ملک اس بات پر متفق ہوئے کہ ان مسائل کو مربوط طریقے سے حل کرنے کیلئے ورکنگ گروپ قائم کئے جائیں، پاکستان ، کشمیرسے اپنے پہلے موقف سے ہٹنے کیلئے تیار ہوگیا، کشمیر ان 8مسائل میں شامل ہے ۔

ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں اور باور کراتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں میں مسئلہ کشمیر کو نا صرف اولیت دی بلکہ اس کو فی الفور اور تیز رفتاری سے حل کرنے ضرورت پر وبھی ضرور دیاہے۔ نذیر گیلانی نے کہاکہ اس وقت کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی فوری ضرورت ہے اور کشمیرکی تین اکائیوں میں اور بیرون ملک مقیم کشمیری قیادت کو اس حوالے سے ایک جائز مقام دیا جائے۔

حریت قیادت، کشمیری رائے عامہ، ماہرین ، دفتر خارجہ، قومی اسمبلی ، کشمیر کمیٹی اور دیگر وہ لوگ جو کشمیری کے مسئلہ کو اجاگر کرنے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور اسے بلند کرنے میں مصروف کے درمیان باقاعدگی سے بات چیت کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔حج کے موقع پر حج وفود کا سلسلہ جو 1970ء کے ددرمیان منقطع کردیا گیا تھا اس کو بحال کیا جائے تاکہ دنیا کے اس بڑے اجتما ع کے موقع پر رابطوں کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔

JKCHR جو1984ء سے کشمیر کیس کی وکالت کرتی چلی آئی ہے کے توسط سے میں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے وزیر اعظم پاکستان اور سیاسی قیادت کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69وین 70ویں اجلاس میں دوٹوک ،واضح پالیسی اور موقف اختیار کرنے پر شکرگزار ہوں اور آرمی چیف نے اپریل 2014ء میں یوم شہداء اور اکتوبر 2015 لندن میں برطانیہ کے ادارہ آر یو ایس آئی میں اپنے خطاب میں جس انداز سے کشمیر پر اپنے مضبوط موقف کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہے۔