اسلام سلامتی کا مذہب ہے‘مسلمانوں پر حملہ تمام مذاہب پر حملہ ہے‘امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے جوکہ ناقابل معافی ہے‘مسلمانوں نے امریکہ کی تعمیروترقی میں جوخدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں‘ ابراہیمی ادیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے ماننے والوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام و قدر کریں، اور منفی سوچ کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔ صدراوبامہ کا بالٹی مور کی مسجد میں خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 4 فروری 2016 12:43

اسلام سلامتی کا مذہب ہے‘مسلمانوں پر حملہ تمام مذاہب پر حملہ ہے‘امریکہ ..

بالٹی مور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04فروری۔2016ء) امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ امریکہ میں بسنے والے ایک خاندان کی طرح ہیں ‘اکثرامریکی غلط طور پر اسلام اور دہشت گردی ساتھ نتھی کرتے ہیں جوکہ غلط ہے ۔ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی مسجد الرحمٰن کی اسلامک سوسائٹی سے خطاب میں صدر اوبامہ نے کہا کہ بہت ہی قلیل لوگوں کے فعل کا الزام پوری مسلمان برادری پر دھر دیا جاتا ہے جو بات درست نہیں۔

اس سے قبل، صدر نے راونڈ ٹیبل اجلاس میں شرکت کی جس دوران ا نھوں نے سوسائٹی کے ارکان سے تفصیلی گفتگو کی جس میں ا نھوں نے بالمشافیٰ مسلمان اکابرین اور نمائندوں کے احساسات اور تشویش سے آگہی حاصل کی۔ا نھوں نے کہا کہ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے جوکہ ناقابل معافی ہے۔

(جاری ہے)

صدر نے کہا کہ اسلام امن، ہمدردی اور مثبت جذبات کا مذہب ہے، جب کہ حضرت اہراہیم علیہ السلام کو یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں یکساں طور پر متبرک مقام حاصل ہے۔

امریکی صدر نے بتایا کہ صدر جیفرسن اور جان ایڈمز اپنے پاس قرآنِ کریم کا نسخہ رکھا کرتے تھے اور انھوں نے ’بِل آف رائٹس کا ذکر کیا جس میں مسلمانوں کو محمدنز کہہ کر پکارا گیا ہے۔اوباما نے کہا کہ امریکہ میں پہلی مسجد نارتھ ڈکوٹا میں تعمیر ہوئی، ملک کی سب سے پرانی مسجد آئیووا میں قائم ہے، جب کہ امریکہ کی اولین فلک بوس عمارت شکاگو میں تعمیر ہوئی، جسے ایک مسلمان نے ڈیزائن کیا تھا۔

انھوں نے امریکہ کے نامور کھلاڑی محمد علی اور کریم عبدالجبار کا ذکر کیا اور کہا کہ ملک کے مختلف شعبہ جات میں، جن میں طب، قانون، تعلیم اور سائنس بھی شامل ہیں، مسلمان امریکیوں کے فخریہ نقش موجود ہیں۔ صدر نے نامور امریکی مسلمان خاتون ابتہاج محمد کا نام لیاجو حجاب پہنتی ہیں اور اولمپک فینسنگ کی معروف کھلاڑی ہیں۔ وہ اس موقعے پر موجود تھیں جنھیں مخاطب ہوتے ہوئے صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اولمپک میں امریکہ کے لیے طلائی تمغہ جیت کر آئیں گی۔

صدر نے کہا کہ مسلمان امریکی فوج کے علاوہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں میں محنت اور جانفشانی سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ میڈیا پر مسلمانوں کو مثبت انداز سے پیش کیا جائے ناکہ انھیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جائے، جو بالکل ہی غلط تاثر ہے۔انھوں نے کہا کہ القاعدہ یا داعش جیسی تنظیمیں کسی طور پر اسلام یا مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتیں یہ وہ ٹولے ہیںجو اسلام کے مہذب اور پرامن مذہب کا غلط پرچار کرتے ہیں، جس کا اسلام سے دور دور تک، قطعاً کوئی واسطہ نہیں۔

صدر اوباما نے یاد دلایا کہ مسلمان ملکوں کے رہنما، اکابرین اور علما دہشت گردی، انتہا پسندی اور پ±رتشدد حرکات کی کھل کر مذمت کرتے رہے ہیں۔انھوں نے یاد دلایا کہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ نے مختلف ملکوں میں جن لوگوں کو ہلاک کیا ہے، ا ن مین سب سے زیادہ تعداد خود بے گناہ مسلمانوں کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابراہیمی ادیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے ماننے والوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام و قدر کریں، اور منفی سوچ کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔

صدر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ اسلام دہشت گردی کا درس دیتا ہے بدقسمتی سے مسلمان ملکوں میں ایسی تنظیمیں تشکیل پائیں اور سرگرم رہیں اور سرگرم ہیں جو باضابطہ طور پر تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے دور دوسرے الہامی مذاہب میں بھی آئے ہے، جیسے یہودیت اور مسیحیت۔کسی ایک مذہب پر حملہ، دراصل سارے مذاہب پر حملہ ہے۔

ا نھوں نے کہا کہ آپ مسلمان یا امریکی نہیں، بلکہ آپ امریکی مسلمان ہیں۔ ساتھ ہی، ا نھوں نے کہا کہ اسلام پر حملہ تمام مذاہب پر حملے کے مترادف ہے۔صدر نے قرآن کی سورہ ہجرات کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شعوب و قبائل میں پیدا کیا، تاکہ پہچان ہو سکے، جب کہ کسی ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں۔ ساتھ ہی، صدر نے ایک اور آیت کا ذکر کیا جس مین کہا گیا ہے کہ ’کسی بے گناہ کا قتل، دراصل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔

ا نھوں نے یاد دلایا کہ پیرس حملے ہوں یا کیلی فورنیا میں سان برنارڈینو کا قتل کا المناک واقعہ، اِن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔صدر نے کہا کہ جب تک پ±رتشدد کارروائیوں کی کھل کر مذمت نہیں کی جائے گی، تب تک اس کا تدارک اور انسداد ممکن نہ ہوگا۔ا نھوں نے یاد دلایا کہ دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے موثر حربی کارروائی جاری ہے، جسے جاری رکھا جائے گا۔

صدر اوباما نے افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمانوں میں شیعہ اور سنی کی تفریق پیدا کی گئی ہے، جب کہ صدیوں سے دونوں فرقے مکمل مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ انھوں نے چوکنہ کیا کہ مذہب و مسلک کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے والوں سے چوکنہ رہیں۔ اس سے قبل، صدر نے ایک راونڈٹیبل اجلاس میں شرکت کی۔ بعدازاں، انھوں نے کہا کہ شریک اکابرین نے یہ بات کی کہ جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے، ان کی پریشانی بڑھ جاتی ہے، اور مذہب اسلام کے خلاف ہر طرح کے الزامات سامنے آتے ہیں۔

صدر نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے، چونکہ مذہب ایسے گھناونے واقعات کی اجازت نہیں دیتا۔صدر نے کہا کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے، جس میں رحم، ہمدردی اور انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ آپ دوسروں سے اس طرح کا سلوک کریں، جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے سلوک روا رکھا جائے۔انھوں نے کہا کہ دنیا کی 1.6 ارب کی آبادی ہر نسل و رنگ پر مشتمل ہے۔

اِس سے قبل، اپنے خیرمقدمی کلمات میںاسلامک سوسائٹی آف بالٹی مورمحمد جمیل نے بتایا کہ سوسائٹی کا قیام 1969ءمیں عمل میں آیا، جو ا±س سے قبل، نماز جمعہ کے علاوہ ایک مقامی یونیورسٹی میں ہفتہ وار اجلاس منعقد کیا کرتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ 1980ءکی دہائی میں اِسی مقام پر مسجد الرحمٰن کو وسعت دی گئی، جس میں صحت کا ایک کلینک اور ابتدائی تعلیم کا ایک سکول کھولا گیا۔

تقریب کے آغاز سے قبل، مسلمانوں کے ایک گروپ نے امریکی شہریت حاصل کی، جس میں امریکہ سے وفاداری کا عہد کیا گیا۔ اِس تقریب کا آغاز، قرآن حکیم کی تلاوت سے ہوا۔صدر اوباما نے امریکی مسجد کا یہ پہلا دورہ ایسے وقت کیا جب جاری صدارتی انتخابی مہم میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کا ڈیٹابیس تیار کرنے اور دو دسمبر کو کیلی فورنیا کے شہر، سان برنارڈینو میں دہشت گرد حملے کے تناظر میں یہ مطالبہ کرنا کہ نئے مسلمان تارکین وطن کو امریکہ میں آنے پر عارضی پابندی لگائی جائے۔