کھیلوں سے وابستہ قومی ہیروز نے پی آئی اے کو قومی اثاثہ قرار دیدیا

جمعہ 5 فروری 2016 14:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔05 فروری۔2016ء) کھیلوں سے وابستہ قومی ہیروز نے پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی آئی اے پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے اور یہ قومی اثاثہ ہے اس لئے اس مسئلے کو حکومت اور پی آئی اے کے حکام مذاکرات کے ذریعے حل کریں تاکہ اس قومی اثاثہ کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان نے آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں مگر اصل بات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں پی آئی اے پر فخر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پی آئی اے کی انتظامیہ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں سابق ورلڈ سکواش فیڈریشن قمر زمان نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بہت دکھ ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ایک ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جس پر حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ دونوں متفق ہوں تاکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکے سابق ہاکی اولمپک شہناز شیخ نے آن لائن کو بتایا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے جس ایئر لائن نے دیگر ممالک کی ایئر لائنز کو بنایا آج اس کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ پی آئی اے میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے پی آئی اے کے ملازمین کام نہیں کرتے اور ادارے کا یہ حال ہوگیا ہے حکومت پی آئی اے کے معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے اور اس صورتحال کے پی آئی اے انتظامیہ اور حکومت دونوں ذمہ دار ہیں سابق ورلڈ سکواش چیمپئن جان شیر خان نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کو چلنے دیا جائے ورنہ یہ ادارہ تباہ ہوجائے گا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری سے فائدہ ہوتا ہے تو اس کی نجکاری ہونی چاہیے اگر فائدہ نہیں ہوتا تو اس کی نجکاری نہیں کرنی چاہیے پی آئی اے کے مسئلے کی وجہ سے ایک دن کا کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں سابق ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری ہونی چاہیے کیونکہ اس ادارے میں اعلیٰ حکام کرپشن میں ملوث ہیں اور ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری صاف اور شفاف طریقے سے ہونی چاہیے اور اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے