قائداعظم سولر پارک پراجیکٹ بہاولپور 1000میگاواٹ کا منصوبہ، جس کے ذریعے حکومت پنجاب نے شمسی توانائی کے حصول میں دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کی ۔ قائد اعظم سولر پارک میں حکومت پنجاب نے اپنے وسائل سے پہلے 100میگا واٹ کے منصوبے کو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا۔ منصوبے سے بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلاشمسی توانائی کا منصوبہ ہے۔ 100میگا واٹ کا سولر منصوبہ شفافیت ،معیاراور برق رفتاری سے تکمیل کی اعلیٰ مثال ہے-خصوصی نیوزفیچر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 11 فروری 2016 13:23

قائداعظم سولر پارک پراجیکٹ بہاولپور 1000میگاواٹ کا منصوبہ، جس کے ذریعے ..

لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 11فروری۔2016ء) قائداعظم سولر پارک پراجیکٹ بہاولپور میں1000میگاواٹ کا منصوبہ ہے جس کے ذریعے حکومت پنجاب نے شمسی توانائی کے حصول میں دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کی ہے۔ قائد اعظم سولر پارک میں حکومت پنجاب نے اپنے وسائل سے پہلے 100میگا واٹ کے منصوبے کو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا۔ منصوبے سے بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلاشمسی توانائی کا منصوبہ ہے۔

100میگا واٹ کا سولر منصوبہ شفافیت ،معیاراور برق رفتاری سے تکمیل کی اعلیٰ مثال ہے۔وزیراعظم پاکستان نے 9مئی 2014میں منصوبے کا سنگ بنیاد رکھاتھا۔پہلے 100میگاواٹ کے منصوبے پر انتہائی تیز رفتاری سے کام کر کے اسے ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

فروری 2015میں منصوبے کی تعمیر کا مرحلہ مکمل ہوا اور 7اپریل 2015کو 100میگا واٹ کے اس سولر منصوبے سے بجلی نیشنل گریڈ میں شامل ہو چکی تھی۔

قائداعظم سولر پارک کے 100میگاواٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل نے پاکستان میں متبادل توانائی کی جانب سفرکو حقیقت کا روپ دیا ہے جو روشن مستقبل کی نوید ہے۔ اس منصوبے کی تیز ترین تکمیل لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے حکومتی کوششوں کی ترجمان ہے۔قائداعظم سولر پارک کیلئے بہاولپور میں چولستان کا انتخاب کیا گیا جہاں ابتدائی طور پر ساڑھے چھ ہزار ایکڑ رقبہ مختص کیا گیا جسے بعد میں بڑھا کر 15ہزار ایکڑکر دیا گیا۔

اس علاقے کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہاں یومیہ اوسط شعاع ریزی (Average Daily Eradiation)ہے جو 1900سے 2300 kWh/m2 ہے۔ چولستان کا یہ علاقہ شعاع ریزی کیلئے بہت زرخیز ہے اور یہاں شمسی توانائی کے پراجیکٹ کیلئے وسیع رقبہ بھی میسر ہے۔منصوبے کیلئے حکومت پنجاب نے قائداعظم سولر پاور کمپنی قائم کی۔ اس کمپنی کا مقصد شمسی توانائی کے پہلے منصوبے کو کامیاب بنا کر اس سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے راہیں ہموار کرنا ہے۔

قائداعظم سولر پارک کے 900میگاواٹ منصوبے کی تکمیل تین مراحل میں ہو گی۔شمسی توانائی کے میدان میں چین کی مایہ ناز کمپنی زونرجی اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اولین حصہ میں رکھا گیا ہے جو اگلے سال کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا۔پاکستان میں بجلی کی طلب میں سالانہ 8فیصد کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بجلی کاشارٹ فال ہر سال پاکستانی معیشت کو جی ڈی پی کے 2فیصدکے برابر متاثر کرتا ہے۔

ہمارے ہاں معاملات کی سنگینی توانائی کے موجودہ روایتی ڈھانچے کی وجہ سے ہے۔ ایسے حالات میں حکومت پنجاب نے متبادل توانائی کے حصول پر توجہ دی ہے اوراس ضمن میں 2013کی کاروبار دوست سرمایہ کاری پالیسی کے اعلان سے اب تک ہمہ وقت کوششیں جاری ہیں۔ متبادل توانائی بالخصوص شمسی توانائی نہایت ماحول دوست ہے جس کی تصدیق 2011میں متبادل توانائی اور موسمیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی پینل کی شائع کردہ خصوصی رپورٹ نے کی۔

رپورٹ کے مطابق شمسی توانائی دیگر طریقوں کے مقابلے میںمینوفیکچرنگ، تنصیب اور آپریشن میں نہایت ماحول دوست ہے ۔ حالیہ جائزے یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ توانائی کے متبادل منصوبے عام طریقوں کے مقابلے میں روزگار کے 3گنا زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔سورج کی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہیں۔اس کیلئے نہ تو ملک میں مطلوبہ ٹیکنالوجی موجود تھی اورنہ ہی اس کے ماہرین پائے جاتے تھے۔

صرف یہی نہیں بلکہ سولر انرجی کی پیداوار کے آغاز کیلئے کوئی لیگل فریم ورک بھی موجود نہیں تھا۔ان تمام تر مشکلات کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کی قیادت میں حکومت پنجاب نے توانائی کے دوسرے روائتی ذرائع کے ساتھ ساتھ اس راستے کو بھی اپنانے کا فیصلہ کیااور پہلے منصوبے کی تکمیل اس سفر میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔شمسی توانائی کے فوائد بے شمار ہیں، جیسا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ صرف ایک بار کی سرمایہ کاری کے بعد بحالی پر ہونے والا خرچ نہایت کم ہے۔شمسی توانائی کے منصوبوں کو چلانے کیلئے ایندھن کی ضرورت بھی نہیں ہے اور صرف سورج کی روشنی درکار ہے۔ اس طرح ایندھن کی فراہمی کے حوالے سے دیگر ممالک پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ان منصوبوں پر افراط زر کا بھی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی مہنگائی بڑھتی ہے۔

شمسی توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واضح کیا ہے کہ اس ضمن میں آنے والی تمام بیرونی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا اوروہ ذاتی طور پر ان منصوبوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ منصوبے کی تعمیر کے دوران ہر مرحلے پر بین الاقوامی قوانین اور معیار کو مدنظررکھا جا رہا ہے۔ کنسلٹنٹس کے انتخاب سے لیکر کمپنیوں کے چناو¿ تک، را ءمٹیریل کی آمد سے لیکر پلانٹ کی تنصیب اور آپریشن تک کو جرمنی اور چین کی جانی مانی بین الاقوامی کمپنیوں نے مانیٹر کیاہے۔

ہر مرحلے پر مکمل جانچ پرتال کی گئی اور تمام سامان کو چیکنگ اور ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزارا گیا ہے۔ شمسی توانائی کے منصوبے دیر پا ہوتے ہیں اس لیے انکی تنصیب نہایت مہارت مانگتی ہے۔چین کے اشتراک سے پنجاب میں توانائی کے جن دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے ان میں قابل ذکرمقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا 300میگا واٹ کا منصوبہ پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں لگایا جا رہاہے ۔

کوئلے کی مائننگ کے حوالے ضلع چکوال کے علا قے دلوال میں 50چینی انجینئرز سائیٹ پر کام کررہے ہیں او رےہاں سے نکلنے والا کوئلہ پنڈ دادن خان میں لگائے جانے والے 300میگا واٹ کے کول پاور پلانٹ میں استعمال کیا جائے گا۔ساہیوال میں 1320میگا واٹ کے کوئلے کی بنیاد پر 2پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں جو دسمبر 2017تک بجلی پیدا کر رہے ہوں گے۔توانائی کے ان منصوبوں سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا، معیشت مستحکم ہو گی، بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور روزگار کے مواقع پیداہونگے ۔

یہ منصوبے پنجاب میں لگ رہے ہیں لیکن ان سے حاصل ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ میں جائے گی جس سے پورے پاکستان کا فائدہ ہو گا۔ شمسی توانائی کے منصوبے ملک کو درپیش توانائی بحران پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوں گے۔