”ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر “

ہفتہ 13 فروری 2016 13:01

”ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر “

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 فروری۔2016ء) ویلنٹاین ڈے دنیا بھر میں ہر سال 14فروری کو محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے , ویلنٹائن ڈے کو محبوبوں کا خاص دن یا اسے عاشقوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔اس کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اواخر میں روحانی بادشاہ کلا ڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھاکسی نافرمانی کی بدولت بادشاہ نے پادری کو جیل بھیج دیا۔

جیلر کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لیے آتی تھی جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا۔ پادری نے آخری لمحات میں بھی اپنی محبت کا اظہاراس انداز سے کیا کہ اپنی معشوقہ کے نام ایک کارڈ ارسال کیا جس پر یہ عبارت تحریر کی: ”مخلص ویلنٹائن کی طرف سے“لیکن ویلنٹاین ڈے کے تہوار کے وجود میں آنے کے حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کردی کیونکہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے سے گریزاں ہونے لگے تھے۔

(جاری ہے)

سینٹ ویلنٹائن نے اس شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی خفیہ شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے سینٹ کو پھانسی کی غرض سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیاجیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی جو کہ خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی قانون کے مطابق پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔اوراس تہوار کے متعلق کئی روایات قدیم رومن تہذیب کے دور سے وابستہ ہیں جس میں یہ تہوار روحانی محبت کے اظہار کے لیے مختص تھا۔

اس ضمن میں بہت سی دیو مالائی کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑئے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے جس میں ایک کتے اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی جن کے خون سے دو طاقتور اور توانا نوجوان غسل کرتے تھے اور پھر اس خون کو دودھ سے غسل کرکے دھویا جاتا تھا۔

اس کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز ہوتا جس کی قیادت وہ نوجوان کیا کرتے تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چمڑے کا ہنٹر ہوتا تھا جس سے وہ ہر اس شخص کو مارا کرتے تھے جو ان کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ رومن خواتین اس ہنٹر کی ضرب کو اپنے لیے ایک اچھا شگون سمجھتی تھیں کیوں کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ بانجھ پن سے محفوظ رہیں گی۔اس طرح یہ رسم اٹلی میں منسوخ کردی گئی جہاں یہ راسخ و رائج ہو چکی تھی۔

پھر اس بھولی بسری رسم کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ اور کچھ مغربی ممالک میں کتاب ِمحبت کے نام سے عشقیہ نظموں پر مشتمل ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن میں سے مختلف اشعار کا انتخاب کرکے ایک عاشق اپنی محبوبہ کو بھیج سکے ان کتب میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے عشقیہ خطوط لکھنے کے طریقے اور ترغیبات بھی شامل ہوتی تھیں۔پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہروں میں بلکہ اب تو قصبوں میں بھی بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے پھولوں کا ویلنٹاین ڈے دنیا بھر کی طرح ہر سال 14 فروری کو پاکستان میں بھی محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :