ڈریپ کا بجٹ بڑھانے سے اس ادارے کا معیار نہیں بڑھا، نجی شعبہ سے اعلیٰ افسران کی حاصل کرنے کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا ہے،ادویات کا معیاربہتر بنانے کیلئے ریگولیٹر اپنا کردار ادا کرے،پاکستان جعلی ادویات بنانے والوں کی جنت بن چکا ہے

سوسائٹی واچ کے صدر خالد محمود کا بیان

اتوار 14 فروری 2016 16:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 فروری۔2016ء) سوسائٹی واچ کے صدر خالد محمودنے کہا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کا بجٹ بڑھانے سے اس ادارے کا معیار نہیں بڑھا۔ سالہا سال سے خدمات سرانجام دینے والے سرکاری افسران کے بجائے نجی شعبہ سے بھاری تنخواہوں پر اعلیٰ افسران کی خدمات حاصل کرنے کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا ہے اور اس سے ادارے پر مالی بوجھ بڑھنے کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

یہ ادارہ غیر فعال ہو چکا ہے جسکا ثبوت فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر ادویات کی قیمت میں من مانا اضافہ ہے جو عوام پر ظلم ہے۔ خالدمحمود نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی فارما انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے مگر انکی مصنوعات کا معیار تسلی بخش نہیں۔

(جاری ہے)

ملک میں اس وقت چھ سو دوا ساز ادارے کام کر رہے ہیں مگرعالمی ادارہ صحت یا ایف ڈی اے نے کسی ایک کے معیار کی تصدیق نہیں کی ہے جسکی وجہ سات فیصد کے شرح سے ترقی کرنے والی مقامی فارما انڈسٹری کی منافع خوری، ریگولیٹرز اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت ہے۔

دوسری طرف بھارت میں ڈھائی سو کے قریب کمپنیاں ان اداروں سے تصدیق شدہ ہیں۔ عالمی امدادی ادارے پاکستان میں مستحقین میں میں تقسیم کی جانے والی ادویات بھی دوسرے ملکوں سے خریدتے ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان سے ادویات خریدنا چاہتے ہیں تاکہ مقامی معیشت ترقی کر سکے مگر انکا معیاربڑی رکاوٹ ہے۔ منافع پر معیار کوترجیح دینے سے صورتحال بدل جائے گی جس میں ریگولیٹر کا کردار بنیادی ہے۔

اسکے علاوہ پاکستان جعلی ادویات کی بھی بڑی منڈی ہے جسکا حجم روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے پھیلتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ دس لاکھ افراد جعلی ادویات استعمال کر کے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔معاملات کو بہتر بنانے میں مریضوں، انکے لواحقین، میڈیکل سٹور مالکان اور ڈاکٹر بھی اپنا کردار ادا کریں۔

متعلقہ عنوان :