آگے بڑھنے کیلئے آزادی اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے‘ ہم سب مل کر خطے کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تبدیل کرسکتے ہیں،تعلقات میں بہتری کیلئے اس طرح کے سیشن بہت ضروری ہیں‘ بھارت میں پاکستانی کلچر بہت مقبول ہے وہ چاہے میوزک کی صورت میں ہو فیشن ، بھارت میں پاکستانی ڈرامے بہت زیادہ پسند کئے جاتے ہیں، میں خود فریدہ خانم کی غزلوں سے لے کر کوک سٹوڈیو کا میوزک بہت پسند کرتی ہوں ،ہر طرح کے لوگ وہاں کے چینل سے نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں کے پرستار ہیں‘اسی طرح پاکستانی فیشن بھی بھارت میں بہت مقبول ہے ‘ مجھے پاکستانی شلوارقمیض بہت پسند ہے

بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کالاہور ادبی میلے سے خطاب

ہفتہ 20 فروری 2016 22:16

آگے بڑھنے کیلئے آزادی اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے‘ ہم سب مل کر خطے ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔20 فروری۔2016ء) بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے لاہور لٹریری فیسٹول سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے آزادی اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے‘ہم سب مل کر خطے کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تبدیل کرسکتے ہیں،تعلقات میں بہتری کے لئے اس طرح کے سیشن بہت ضروری ہیں‘ بھارت میں پاکستانی کلچر بہت مقبول ہے وہ چاہے میوزک کی صورت میں ہو فیشن ، بھارت میں پاکستانی ڈرامے بہت زیادہ پسند کئے جاتے ہیں میں خود فریدہ خانم کی غزلوں سے لے کر کوک سٹوڈیو کا میوزک بہت پسند کرتی ہوں جبکہ ہر طرح کے لوگ وہاں کے چینل سے نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں کے پرستار ہیں‘اسی طرح پاکستانی فیشن بھی بھارت میں بہت مقبول ہے ‘اگرچہ میں زیادہ تر ساڑھی ہی پہنتی ہوں لیکن مجھے پاکستانی شلوارقمیض بہت پسند ہے۔

(جاری ہے)

ہفتے کے روز اپنے خطاب کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے ساٹھ سالہ کیرئر میں بہت سی حیران کن اور یادگار باتیں ہیں جو آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں میرا تعلق جوائنٹ فیملی سے تھا میرے دادا اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ساتھ مل کر کھانا پینا اور کھیلنا کودنا بہت اچھا لگتا تھا،میرے دادا نہایت بااصول آدمی تھے اور اکثر لوگ انہیں انگریزوں کی طرح سمجھتے تھے ،انہیں حقہ اور وسکی بہت پسند تھی۔

وہ سار ادن گھر کے صحن میں موجود ررہتے تھے۔جبکہ ہم سب کے ان کے اردگرد موجود رہتے تھے۔اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھا،ہمیں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔میرے والد جی ایم ٹیگور کا تعلق کلکتہ کی ایک لبرل فیملی سے تھا۔شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ میں نے کیرئر کا آغاز بنگالی فلموں سے کیا۔میری پہلی فلم’’اوپو سنسار‘‘تھی جس کے ڈائریکٹر ستیہ جیت رائے تھے جن کا شمار عظیم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے۔

پہلی فلم میں ہی ان کے ساتھ کام کرنا میرے لئے عزت کی بات تھی۔اس وقت میری عمر بھی بہت کم تھی۔میری پہلے لوگوں نے بہت پسند کی۔اس کے بعد’’شکتی سمانتا‘‘ایک بہت ہی مختلف طرز کی فلم تھی جو مجھے آج بھی پسند ہے۔فلموں کی شوٹنگ کے دوران میں نے بھارت میں بہت سفر کیا جہاں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ انڈیا میں ہر سو کلومیٹر کے بعد زبان اور کلچر تبدیل ہوجاتا ہے۔

جبکہ انڈین فلموں سے بھی میں بہت کچھ سیکھا۔اس زمانے میں بھی بھارتی فلمیں دوسرے ممالک میں بہت مقبول تھیں۔جنوبی افریقہ کی آزادی کے بعد جب میں اپنے شوہر کے ہمراہ پہلی بار وہاں گئی تو لوگوں نے بتایا کہ ہم ہراتوار کو بہت اہتمام سے آپ کی فلم دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔1971 میں بننے والی فلم’’آنند‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی جس میں مجھے اپنا کرادر بہت مشکل لگا کیونکہ یہ ایک ایسی لڑکی کا کردار تھا جو ایک ایسے شخص سے پیار کرتی ہے جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہے جبکہ میری شادی بھی کسی اور سے ہوچکی ہوتی ہے۔

وہ آنسو?ں کا ٹائم تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نواب منصور علی خان پٹودی سے میری پہلی ملاقات ایک کرکٹ پارٹی میں ہوئی تھی کیونکہ میں مجھے بھی کرکٹ بہت پسند تھی ہم دونوں بہت جلد دوست بن گئے اس وقت میری عمر 23سال تھی‘منصور نے مجھے پابندی وقت سمیت بہت کچھ سکھایاوہ زیادہ تر بنگالی میں ہی مجھے سمجھاتے تھے ہماری پریم کہانی بھی عام کہانیوں کی طرح تھی کیونکہ پیار ہر جگہ ایک جیسا ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوان :