تین سو سے زائد مجرم لٹکا چکا کبھی ندامت محسوس نہیں ہوئی ، تارا مسیح

خاندانی جلاد ہوں چچا اور والد نے بھی ہزاروں مجرموں کو پھانسی دی کافی عرصے فارغ رہا سزائے موت سے پابندی اٹھنے کے بعد کام بہت بڑھ گیا،جیل میں پھانسی کا طریقہ کار انگریزوں کے ہی زمانے کا رائج کردہ ہے اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بس حکم کی تعمیل کرتا ہوں فی پھانسی کبھی 500 روپے ملتا ہے تو کبھی سفر بھی پلے سے کرنا پڑتا ہے،انٹرویو

اتوار 13 مارچ 2016 15:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 مارچ۔2016ء) معروف جلاد تارا مسیح نے کہا ہے کہ تین سو زائد مجرم لٹکا چکا ہوں کبھی ندامت محسوس نہیں ہوئی خاندانی جلاد ہوں چچا اور والد نے بھی ہزاروں مجرموں کو پھانسی دی کافی عرصے فارغ رہا سزائے موت سے پابندی اٹھنے کے بعد کام بہت بڑھ گیا ہے ایک انٹرویو میں جلدد تارا مسیح کا مزید کہنا ہے کہ تختے پر موجود شخص کا نام ، جرم معلوم نہیں ہوتا ۔

بس حکم کی تعمیل کرتا ہوں فی پھانسی کبھی 500 روپے ملتا ہے تو کبھی سفر بھی پلے سے کرنا پڑتا ہے ہر پھانسی سے قبل ریہرسل ہوتی ہے دم نکلنے کے باوجود مجرم کو نصف گھنٹہ تختہ پر دار لٹکائے رکھتے ہیں ایک سوال کے جواب میں تارا مسیح نے کہا کہ جیل میں پھانسی کا طریقہ کار انگریزوں کے ہی زمانے کا رائج کردہ ہے اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی بلکہ فی پھانسی کا نرخ بھی اسی زمانے کا برقرار ہے جو تنخواہ کے علاوہ ملتا ہے ۔

(جاری ہے)

میرے دادا کے دور میں ماضی فی پھانسی 20 روپے ملتے تھے کاغذات میں اب بھی یہی ریٹ درج ہے مگر جیل حکام کبھی 300 سے 500 روپے تک دے دیتے ہیں پھانسی چڑھانے سے قبل مجرم کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے کپڑے اتار کر مجرم کا وزن کیا جاتا ہے اور پھر اسی وقت کے مطابق ہی رسہ تیار کیا جاتا ہے جو جیل میں ہی موجود ہوتا ہے بعدازاں مجرم کو پہنا دیا جاتا ہے کم وزنی والے مجرم کے لئے رسہ طویل جبکہ زیادہ وزن والے مجرم کے لئے چھوٹا رسہ تیار کیا جاتا ہے سارے سامان ، تختہ دار کا معائنہ ڈپٹی سپرٹنڈنٹ جیل خود کرتے ہیں مجرم کو پھانسی سے قبل غسل کرایا جاتا ہے عبادت کا وقت بھی دیا جاتا ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے الگ الگ عبادت کا سامان موجود ہوتا ہے رشتہ داروں سے آخری ملاقات بھی کرائی جاتی ہے پھر جیل عملے کے دو ارکان مجرم کو بازوؤں سے تھام کر پھانسی کے تختے تک لاتے ہیں تاکہ مجرم کو اگر موت کے خوف سے بے ہوش ہو جائے یا لڑکھڑا جائے تو اسے سنبھالا جا سکے ۔

عام طور پر مجرم کلمہ طیبہ کا ورد اور آیات قرآن پڑھتے ہوئے تختہ دار تک آتے ہیں بعض اوقات مجرم حکومت یا دشمنوں کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں مجرم کو آخری سفر پر روانہ کرنے سے قبل اس کے جوتے اتارے جاتے ہیں دونوں ہاتھ پشت پر باندھنے کے علاوہ ٹانگیں بھی باندھ دی جاتی ہیں اور چہرے پر سیاہ نقاب چڑھایا جاتا ہے پھر ڈپٹی صاحب کے اشارے کا انتظار ہوتا ہے جیسے ہی وہ اشارہ ملتا ہے تختہ کھینچ دیا جاتا ہے ۔

متعلقہ عنوان :