گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں حزب اسلامی کا افغان حکومت کیساتھ براہ راست مذاکرات میں شمولیت کا فیصلہ

شوریٰ کے امیر قاضی عبد الحکیم حکیم اور حزب اسلامی کے سیاسی امور کے سربراہ ڈاکٹر غیرت بہیرپر مشتمل دو رکنی ٹیم تشکیل طالبان کو مذاکرات کی میزپر لانے کیلئے طالبان سے رابطے جاری ہیں ذرائع جب تک اعتماد کی بحالی کیلئے افغان حکومت اور امریکہ اقدامات نہیں اٹھاتے اس وقت مذاکرات میں حصہ نہیں لینگے طالبان

اتوار 13 مارچ 2016 16:04

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء) افغانستان کے سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں حزب اسلامی نے افغان حکومت کیساتھ براہ راست مذاکرات میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ۔ حزب اسلامی کے رہنماؤں نے ”اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء “کو بتایا کہ گل بدین حکمت یار نے پارٹی کو مذاکرات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی ہے ۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کیلئے دو رکنی ٹیم کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں حزب کے مرکزی شوریٰ کے امیر قاضی عبد الحکیم حکیم اور حزب اسلامی کے سیاسی امور کے سربراہ ڈاکٹر غیرت بہیر بھی شامل ہیں ۔یاد رہے کہ طالبان نے مذاکرات میں شمولیت سے انکار کیا ہے چار ممالک افغانستان  پاکستان  چین اور امریکہ کی جانب سے طالبان  حزب اسلامی اور دیگر گروپوں کوافغانستان حکومت سے ساتھ مذاکرات میں شرکت کیلئے کہا تھا جو مارچ کے پہلے ہفتے ہونے تھے لیکن طالبان کے انکار کے بعد یہ مذاکرات ملتوی کر دی گئے تھے ۔

(جاری ہے)

”اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء “کو معلوم ہوا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میزپر لانے کیلئے طالبان سے رابطے جاری ہیں اس سے چین اور پاکستان نے قطر میں طالبان کے دفتر سے رابطہ بھی کیا تھا تاہم رابطوں کے باوجود طالبان مذاکرات سے انکاری ہیں طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک اعتماد کی بحالی کیلئے افغان حکومت اور امریکہ اقدامات نہیں اٹھاتے اس وقت وہ مذاکرات میں حصہ نہیں لینگے طالبان نے قطر میں سیاسی دفتر کو دوبارہ کھولنے  مرکزی رہنماؤں پر بین الاقوامی پابندیاں ختم کر نے اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پیش کئے ہیں افغان حکومت نے پیشگی شرائط کی مخالفت کی ہے ۔

مبصرین کا خیا ل ہے کہ حزب اسلامی کی مذاکرات میں باضابطہ طورپر شامل ہونے کے فیصلے سے مذاکراتی عمل شروع کر نے میں مدد مل سکتی ہے ۔حزب اسلامی کے ذرائع نے ”اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء “کو بتایا کہ پاکستان نے اب تک حزب اسلامی مذاکرات کیلئے دعوت نہیں دی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ مذاکرات پاکستان میں ہونے ہیں تو تکنیکی طورپر یہ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کے تمام گروہوں کو دعوت دے۔

اس سے پہلے افغان صدر اشرف غنی نے کئی مرتبہ طالبان اور حزب اسلامی کو تقاریر میں مذاکرات میں شمولیت کی دعوت دی ہے ۔“اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء “کو معلوم ہوا ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے بھی حزب اسلامی کے سیاسی امور کے انچار ج غیر بہیر کو فون پر بھی مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ۔

مذاکرات میں شمولیت کی دعوت کے بعد حزب اسلامی کے رہنماؤں نے اپنے سربراہ حکمت یار کو دعوت ارسال کی تھی اور انہوں نے تحریر ی طورپر پارٹی کو مذاکرات میں شمولیت کی اجازت دیدی ہے ۔دریں اثناء حزب اسلامی کی طرف سے اتوار کو جاری کئے گئے بیان میں بھی حزب اسلامی کی مذاکرات میں شامل ہونے کے فیصلے کی تصدیق کی گئی ہے پشتو زبان میں جاری کئے گئے بیان میں امریکی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی گئی ہے جس میں دو رہنماؤں کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔

حزب اسلامی نے کہاکہ ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن نہیں بلکہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے ۔حزب اسلامی نے کہاکہ امریکہ کے جنگ جاری رکھنے پر اصرار اور امریکہ کے افغانستان میں حامیوں کی جانب سے مذاکراتی عمل کی ناکامی کی کوششوں کے باوجود حزب اسلامی نے مذاکرات میں حصہ لینے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ کیونکہ حزب اسلامی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :