سیمنٹ انڈسٹری نے بجٹ تجاویز پیش کر دیں

منگل 15 مارچ 2016 18:57

کراچی ۔ 15 مارچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔15 مارچ۔2016ء) آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز نے ایف بی آر کو اپنی بجٹ سفارشات پیش کردی ہیں اور تجویز دی ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو مرحلہ وار ختم کیا جائے کیونکہ سیمنٹ اشیائے ضرورت میں شمار کی جاتی ہے۔ ایف بی آر کو دی گئی بجٹ سفارشات میں چیئرمین اے پی سی ایم اے محمدعلی ٹبا نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ سیمنٹ کی ریٹیل نرخ پر 5 فیصد ایف ای ڈی اور زیادہ سے زیادہ ریٹیل پرائس (ایم آر پی) پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے اور یہ 100 روپے فی بیگ بن جاتے ہیں۔

زیادہ ٹیکسوں کے بوجھ کے باعث سیمنٹ کی کھپت متاثر ہوتی ہے ٹیکسوں کی چوری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے سے ملک میں سیمنٹ کی کھپت میں اضافے کے ساتھ ٹیکسوں کی چوری کا بھی سدباب ممکن ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مختلف خدمات پر صوبائی ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکس عائد ہیں۔ ان خدمات پر فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ء کے تحت بھی ٹیکس عائد ہیں اس طرح انڈسٹری پر دوہرے ٹیکس عائد ہیں، اس لئے ایسی خدمات جن پر صوبائی سطح پر ٹیکس عائد ہے فیڈرل سطح پر ختم کیا جائے۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے سے کاروباری لاگت میں کمی واقع ہو گی اور انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے مزید تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آفس آف کمشنر (اپیل) یا ایپیلٹ ٹرائی بیونل میں درخواست سے قبل ٹیکس دہندہ کو ڈیوٹی ڈیمانڈ یا جرمانے کی مد میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے، یہ لازمی شرط انصاف کی فراہمی میں ایک رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں یکساں پرویژنز کو ختم کردیا گیا ہے اس لئے انہیں ایکسائز لاء سے بھی ختم کیا جائے۔

چیئرمین اے پی سی ایم اے نے بلوچستان کے سرحدی راستے ایرانی سیمنٹ کی آمد اور مقامی سیمنٹ سے زیادہ سستے نرخ پر فروخت پر بھی توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی سیمنٹ کی فروخت انڈسٹری کے لئے باعث تشویش ہے اور طویل المدت میں انڈسٹری کی بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایران سے درآمد ہونے والی سیمنٹ پر فوری طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے اور درآمد سے قبل اس کے معیار کو پرکھنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ ضروری ہے تاکہ مقامی انڈسٹری کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اسی طرح بجٹ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئلے کی درآمد پر ایک فیصد سے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا کر 6 فیصد کرنے سے بھی انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے مزید کہا کہ کوئلے پر درآمدی ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہئے تاکہ اس کا بطور متبادل ایندھن کے استعمال جاری رہے، حکومت کی طرف سے گیس ڈیویلپمنٹ ایکٹ 2011ء نافذ العمل رکھا گیا ہے، حکومت ماسوائے گھریلو صارفین سب سے ٹیکس حاصل کرتی ہے۔

اس ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ cess، فیس ہے ٹیکس کے زمرے میں شمار نہیں ہو گا اور اس حوالے سے لیا جانے والا تمام ٹیکس واپس کیا جائے یا پھر ماہانہ بنیاد پر چھ ماہ کے اندر ایڈجسٹ کیا جائے جبکہ یہ فیصلہ 22 اگست 2014ء کو کیا گیا تھا، اسی طرح حکومت نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیویلپمنٹ آرڈیننس 2014ء کو نافذ کیا تھا۔

اس ٹیکس کی میعاد مدت جنوری 2015ء کو ختم ہونی تھی تاہم اسے مئی 2015ء تک مزید بڑھا دیا گیا۔ مئی 2015ء میں حکومت نے جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015ء جاری کیا اور بعد ازاں ایک مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا۔ ایس ایچ سی نے جی آئی ڈی سی کے تحت ٹیکس کی وصولی پر اسٹے آرڈر جاری کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کو بھی ختم کیا جائے اس کی وجہ سے شعبے کی کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور عالمی مسابقتی حالات میں مقامی انڈسٹری کی مسابقتی خصوصیات پر اثر پڑے گا جس سے اس کی برآمدات متاثر ہوں گی۔

چیئرمین اے پی سی ایم اے نے جو مزید بجٹ سفارشات پیش کی ہیں ان میں افغانستان کو سیمنٹ کی برآمد کے حوالے سے ڈیوٹی ڈرا بیک، کاروباری شعبہ پر یکساں ٹیکس کا نفاذ، کم ازکم ٹیکس، پلانٹ، بلڈنگ اور مشینری پر بنیادی چھوٹ اور دیگر تجاویز ۔ آرڈیننس 65A کے تحت ٹیکس کریڈٹ، رجسٹرڈ فرد پر سیلز ٹیکس، ٹیکس کریڈٹ شق 65B ، پلانٹ، مشینری اور سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ، سیکشن 236G کے تحت ایڈوانس ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس زیر تحت سیکشن 236H اور مختلف شق کے تحت کٹوتیاں شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :