اورنج لائن منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ نہیں،وفاقی حکومت صرف این او سی جاری کرے گی،کوئی صوبہ وفاق کی مرضی کے بغیر بیرونی فنڈنگ نہیں لے سکتا ، 4500 میگاواٹ کے داسو ڈیم سمیت مغربی روٹ پر بھی منصوبے لگ رہے ہیں، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و اصلاحات احسن اقبال کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کو بریفنگ

منگل 15 مارچ 2016 20:29

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 مارچ۔2016ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کو آگا ہ کیا ہے کہ لاہور اورنج لائن منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ نہیں،وفاقی حکومت صرف این او سی جاری کرے گی،کوئی صوبہ وفاق کی مرضی کے بغیر بیرونی فنڈنگ نہیں لے سکتا،اورنج لائن منصوبے میں وفاقی حکومت کا ایک پیسہ بھی نہیں لگے گا،راہداری منصوبے کے تحت 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نجی شعبہ کرے گا ،باقی گیارہ ارب ڈالر میں چینی گرانٹ اور رعائتی قرضہ شامل ہے، 4500 میگاواٹ کے داسو ڈیم سمیت مغربی روٹ پر بھی منصوبے لگ رہے ہیں۔

منگل کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے اجلاس سینیٹر طاہرحسین مشہدی کی زیر صدارت ہوا اجلاس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا کہ کوئی صوبہ وفاق کی مرضی کے بغیر بیرونی فنڈنگ نہیں لے سکتا۔ اورنج لائن منصوبے میں وفاقی حکومت کا ایک پیسہ نہیں لگے گا۔

وفاقی صرف این او سی جاری کرے گا۔ راہداری منصوبے کے تحت 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نجی شعبہ کرے گا اور توانائی کے شعبے میں آئی پی پیز کی طرز پر منصوبے لگائے جائیں گے۔ باقی گیارہ ارب ڈالر میں چینی گرانٹ اور رعائتی قرضہ شامل ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت ایک طرف اداروں کی نجکاری کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف سبسڈی کی بنیاد پر منصوبے شروع کیئے جا رہے ہیں۔

طاہر مشہدی نے کہا کہ راہداری گیم چینجر ہے تاہم ارکان پارلیمنٹ کو سوال اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ بلوچستان کے سینٹرز نے صوبے میں بجلی منصوبے نہ لگانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سیف اﷲ مگسی نے کہا کہ لگتا ہے کہ ہم صوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی کالونی ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ 4500 میگاواٹ کے داسو ڈیم سمیت مغربی روٹ پر بھی منصوبے لگ رہے ہیں۔