روسی لڑاکا طیاروں کا پہلا گروپ شام میں اپنے فوجی اڈے سے وطن واپس چلا گیا

لڑاکا طیاروًں کا پہلا گروپ شام کے حمیم ائیربیس سے روسی فیڈریشن کے علاقے میں اپنے مستقل اڈوں کی جانب پرواز کر گیا ان میں ایس یو34 لڑاکا طیارے اور ٹی یو 154 ٹرانسپورٹ طیارے شامل ہیں،روسی وزارت دفاع

منگل 15 مارچ 2016 20:33

ماسکو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 مارچ۔2016ء) روسی صدر ولادی میر پوتین کے شام سے فورسز کے انخلاء کے حکم کے بعد لڑاکا طیاروں کا پہلا گروپ جنگ زدہ ملک میں اپنے فوجی اڈے سے وطن واپس چلا گیا ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روسی لڑاکا طیاروًں کا پہلا گروپ شام کے حمیم ائیربیس سے روسی فیڈریشن کے علاقے میں اپنے مستقل اڈوں کی جانب پرواز کر گیا ہے۔

ان میں ایس یو34 لڑاکا طیارے اور ٹی یو 154 ٹرانسپورٹ طیارے شامل ہیں۔وزارت دفاع نے مزید بتایا ہے کہ روسی طیارے گروپوں کی شکل میں ائیربیس سے واپس روانہ ہوں گے،ان کے ساتھ ایک ٹرانسپورٹ طیارہ ہوگا۔اس میں روسی لڑاکا طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے جانے والا فنی عملہ سوار ہوگا یا آلات واپس لائے جائیں گے۔

(جاری ہے)

تمام روسی طیارے پہلے سے طے شدہ روٹ پر گروپوں کی شکل میں محو پرواز ہوں گے اور تمام طیارے روسی فیڈریشن کے کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد الگ الگ اپنے اپنے اڈوں کی جانب چلے جائیں گے۔

روسی صدر ولادی میر پوتین نے پیر کی شب اچانک وزارت دفاع کو شام سے روسی افواج کے انخلاء کا حکم دیا تھا اور اپنے اس فیصلے سے یورپی ممالک کو ہکا بکا کردیا تھا۔انھوں نے ایک نشری بیان میں کہا کہ ہماری وزارت دفاع اور مسلح افواج کو جو کام سونپا گیا تھا،وہ مجموعی طور پر مکمل کر لیا گیا ہے۔اس لیے میں وزیر دفاع کو حکم دیتا ہوں کہ وہ عرب جمہوریہ شام سے ہماری مسلح افواج کے مرکزی حصے کو واپس بلا لیں۔

واضح رہے کہ روس کے لڑاکا طیارے 30 ستمبر 2015ء سے شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار مسلح افواج کے خلاف لڑنے والے داعش اور دوسرے باغی گروپوں کے خلاف فضائی حملے کررہے تھے۔ روسی صدر نے ایسے وقت میں شام میں موجود اپنی فوج اور لڑاکا طیاروں کو واپس بلایا ہے جب جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔اس بات چیت کا مقصد شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا ہے۔اس لڑائی کے نتیجے میں دو لاکھ ستر ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :