کاروباری برادری ترکمانستان کی اقتصادی راہداری میں شمولیت کے حکومتی فیصلے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں،میاں زاہد حسین

دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئینگے، تجارت بڑھنے سے امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو گی جو وزیر اعظم نواز شریف کا وژن ہے،بیان

جمعہ 18 مارچ 2016 20:57

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 مارچ۔2016ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے فرسٹ وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک بھر کی کاروباری برادری حکومت کی جانب سے ترکمانستان کی اقتصادی راہداری میں شمولیت کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔

اس سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئینگے جبکہ تجارت بڑھنے سے امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو گی جو وزیر اعظم نواز شریف کا وژن ہے۔ میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نہ صرف وسط ایشیائی ریاستوں کو مختصرترین ٹریڈ روٹ فراہم کرتا ہے جبکہ یہ ممالک ایک مستحکم ٹریڈ بلاک بھی بنا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلہ میں ویزا معاملات،تجارتی رکاوٹوں، فضائی رابطوں میں اضافہ اور زمینی راستوں کی سیکورٹی یقینی بنانا اہم ہے ۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فنانشل مارکیٹ کا حجم کم ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری کی جلد از جلد تکمیل میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔گوادر سے کاشغر تک2700 کلو میٹر طویل راہداری میں انفراسٹرکچر،ٹرانسپورٹیشن، توانائی،ا سپیشل اکنامک زونز اور متعلقہ ایس ایم ایز کیلیئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چاہیئے ہو گی ۔ مقامی کرنسی میں اس سرمایہ کاری کا حجم کم از کم سوا ایک کھرب سے ڈیڑھ کھرب روپے ہو گا جس کی فراہمی مقامی بینکوں کے بس کی بات نہیں۔

بینک پہلے ہی نجی شعبے کو ساڑھے چار کھرب سے زیادہ کے قرضے دے چکے ہیں اسلیئے راہداری کیلیئے بینکوں کو اپنی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے جسکے لیئے ا سٹاک ایکسچینج کا رخ کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ بعض دشمن ملک اور مقامی سیاستدان اور نام نہاد ماہرین اقتصادی راہداری کو بھی مشرقی و مغربی روٹ، ماحولیات اور صوبائیت کے معاملات میں الجھا کر کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ملک و قوم کی بد قسمتی ہو گی کیونکہ ایسے مواقع قوموں کی تاریخ میں بار بار نہیں آتے۔ چین کے پاس پاکستان کے علاوہ دیگر آپشن بھی ہیں۔لہذاہمیں اس نادر موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ عنوان :