پرویزمشرف واپس نہ آئے توانٹرپول کے ذریعے انہیں وطن واپس لایاجائیگا،چودھری نثار

آج تک کسی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنے وہ دن نہیں دیکھے جس کاسامنا مشرف کو کرناپڑا،سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومت اورتحریک انصاف کے حامد خان نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی ہم نے آخری حد تک مشرف کانام ای سی ایل سے نکالنے کے کیس کو لڑامگرحامدخان پیش نہیں ہوئے،اپوزیشن کوسپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں تو اس مسئلے کوسیاسی کیوں بنایاجارہاہے،پیپلزپارٹی ہمیں نہیں تو اپنے ورکروں اورپارٹی کو جواب دیں کہ انہوں نے آئین شکن مشرف کے ساتھ این آراو کیوں کیاتھا، وفاقی وزیورداخلہ کاپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیدخورشید شاہ کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض کا جواب

پیر 21 مارچ 2016 22:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21 مارچ۔2016ء) وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہاہے کہ اگرجنرل ریٹائرڈپرویزمشرف واپس نہ آئے توانٹرپول کے ذریعے انہیں وطن واپس لایاجائیگا،آج تک کسی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنے وہ دن نہیں دیکھے جس کاسامنا مشرف کو کرناپڑا،سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومت اورتحریک انصاف کے حامد خان نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی ہم نے آخری حد تک مشرف کانام ای سی ایل سے نکالنے کے کیس کو لڑامگرحامدخان پیش نہیں ہوئے،اپوزیشن کوسپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں تو اس مسئلے کوسیاسی کیوں بنایاجارہاہے،پیپلزپارٹی ہمیں نہیں تو اپنے ورکروں اورپارٹی کو جواب دیں کہ انہوں نے آئین شکن مشرف کے ساتھ این آراو کیوں کیاتھا۔

(جاری ہے)

پیرکو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائدحزب اختلاف سیدخورشید شاہ کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض کے جواب میں جواب دیتے ہوئے وزیرداخلہ چودھری نثارنے کہاکہ یہاں تاثر دیاجارہا ہے کہ مشرف کے جانے سے ایک بہت بڑاگناہ عظیم ہوچکا ہے اور وہ لوگ انتہائی پاک صاف ہیں لفاظی میں نہیں جانا چاہتا اس سے ایوان کاتقدس پامال ہوتا ہے قائدحزب اختلاف نے جوکچھ کہا میرا فوکس صرف دو فقروں تک ہے ایک کوگواہ بنایا گیا اور دوسرا یہ کہ ہم کمزورتھے میں نے2011ء میں اس ایوان میں جو تقریر کی تھی اس کے اقتصابات ایوان میں پیش کروں گا میں نے کہاتھا کہ مشرف کیخلاف حکومت کارروائی کرے تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہونگے پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی یہ صرف یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑاسکتے کہ ہم کمزورتھے انہوں نے کہاکہ حکومت نے مشرف کانام ای سی ایل سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نکالا اس پر پیپلزپارٹی کے ارکان نے’’ جھوٹ جھوٹ‘‘ کی آوازیں بلند کیں وزیرداخلہ نے کہاکہ کیاپیپلزپارٹی والوں کے منہ سے مشرف کیخلاف ایک لفظ بھی نکلاتھا جب زخم تازہ تھے 2007ء میں اپوزیشن نے فیصلہ کیاکہ اب ہم نے اس اسمبلی میں نہیں جانا جس دور میں جمہوریت کش واقعہ ہوا ہے پوری اپوزیشن نے استعفے دیئے مگر یہ کنارے پرکھڑے ہوکر تالیاں بجاتے رہے انہوں نے کہاکہ جب جنرل مشرف کانام بینظیربھٹو قتل کیس میں گیاتھا تو آپ ہمیں نہیں اپنے ورکروں اورپارٹی کو جواب دیں کہ آپ نے اس آئین شکن کے ساتھ این آر او کیوں کیاتھا؟ انہوں نے کہاکہ اس اپیل میں تحریک انصاف بھی پارٹی تھی حامدخان نے بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی تھی سپریم کورٹ میں تین مرتبہ حامد خان کانام پکارا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے آج پیپلزپارٹی کس منہ سے مشرف پر تنقیدکرتی ہے مشرف کیخلاف کیس میں پارٹی کیوں نہیں ہے؟ملک میں اس سے پہلے بھی تین مرتبہ مارشل لاء مگرموجودہ حکومت نے اس حکومت کو توفیق دی کہ آرٹیکل 6 کاکیس دائر کیابینظیربھٹو کیس کی ایف آئی آر ہمارے دور میں عوامی فیصلے کے مطابق درج ہوئی 30 مارچ2014ء کو ٹرائل کورٹ کافیصلہ آیا پھر ہائی کورٹ کافیصلہ آیا اس کیخلاف بھی حکومت نے اپیل کی اور سپریم کورٹ میں گئے حامدخان نے بھی اپیل کی ہم نے آخری حد تک اس کیس کولڑا اورحامدخان پیش ہی نہیں ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر اپوزیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں تو اس کو سیاسی فیصلہ کیوں بنایاجارہا ہے؟ جب سپریم کورٹ کافیصلہ آیا تو جنرل مشرف کی سیٹ کراچی سے ایمریٹس ایئرلائنز پربک تھی ان کے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے تھے مگر ایف آئی اے نے ان کو مطلع کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالے بغیرمشرف ملک سے باہرنہیں جاسکتے پھر دوسرے دن ان کے وکلاء نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اورای سی ایل سے نام نکالا گیا اگر پرویزمشرف ملک میں واپس نہ آئے تو انٹرپول کے ذریعے انہیں واپس وطن لایاجائیگا انہوں نے کہاکہ آج تک کسی چیف نے وہ دن نہیں دیکھے جس کا سامنا مشرف کو کرنا پڑا وہ عدالتوں میں پیش ہوئے ان کیخلاف آرٹیکل6 کا مقدمہ بنایا گیا ۔

پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراداخلہ سپریم کورٹ کا آخری حکم نامہ پڑھ کر ایوان میں سنا دیں کہ اس میں کیا لکھا ہے ؟ سپریم کورٹ نے بار بار کہا کہ ہمارے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائی جائے اس کا فیصلہ ایگزیکٹو نے کرنا ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ میں وکیل نہیں ہوں اور کسی بڑے وکیل کے سامنے بحث نہیں کر سکتا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر جب بحث ہوگی تو سپریم کورٹ کافیصلہ سب سے پہلے پڑھوں گا ای سی ایل کی اتھارٹی حکومت پاکستان کی ہے جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو معاملہ وزارت داخلہ کے پاس آتا ہے میں ایوان میں ایک ایک لفظ کی وضاحت کروں گا بعد ازاں چوہدری اعتزاز احسن سپریم کورٹ کے فیصلے کی نقل لے کر چوہدری نثار علی خان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ وہ اسے ایوان میں پڑھ کر سنا دیں تاہم اس دوران سپیکر نے ایجنڈے کی کارروائی شروع تو وزیراداخلہ ایوان سے باہر چلے گئے ۔

اس سے قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قانون سازی کیلئے مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے اس سے پہلے تمام معاملات قومی اسمبلی، سینیٹ نے خود طے کئے۔ چیئرمین نے ایک رولنگ دی اور اس کے حوالے سے صدر مملکت کو مشترکہ اجلاس بلانے کیلئے خط لکھا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں اس حوالے سے اختلاف ہے، سینیٹر اسحاق ڈار نے اس حوالے سے بریفنگ دی ہے۔ سینیٹ کا ادارہ وفاق کی نمائندگی کررہا ہے۔ سینیٹ کے پانچ بلوں کیساتھ حکومت نے دو بل مزید شامل کئے ہیں جن میں گیس چوری بل اور پی آئی اے تبدیلی 2016ء شامل ہیں۔ سینیٹ کے نکتہ نظر پیش کرنے کے بعد معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھیجا جاتا تو پھر اس مشترکہ اجلاس کی نوبت پیش نہ آتی، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 6 کا ملزم مشرف جہاز میں اڑ کر ملک سے باہر چلا گیا قوم جاننا چاہتی ہے کہ مشرف کتنے بیمار ہیں وہ جہاز کی سیڑھیوں پر سگار پیتے ہوئے سوار ہوئے اور دبئی پہنچتے ہی میٹنگ کی صدارت کی ، قوم کو بتایا جائے کہ مشرف کتنے بیمار ہیں اس موقع پر سپیکر سردار ایاز صادق نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ صرف چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر بات کریں اور معاملے کو درمیان میں نہ لائیں، وفاقی وزیر سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اجلاس سات بلوں کی منظوری کیلئے بلایا گیا ہے ، آئین میں لکھا ہے کہ اگر کوئی بل کسی ایک ایوان سے منظوری کے بعد دوسرے ایوان سے منظور نہ ہو تو وہ مشترکہ اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔

قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں اس وقت قانون سازی کرنے جارہے ہیں جب ایک آئین شکن کو بری کر کے بھیجا گیا ۔ کہا گیا کہ سابق دور حکومت میں مشرف چار مرتبہ باہر گیا تھا یہ بات درست ہے، سابق حکومت نے پرامن طریقے سے اقتدار کے انتقال کا مرحلہ مکمل کیا۔ مشرف نے ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کر کے منتخب وزیراعظم کو گرفتار کر کے اس پر تشدد کیا، عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی، محمد نواز شریف نے آرٹیکل 6 پر اس ایوان کو اعتماد میں لیا، پاکستانیوں نے جمہوریت کیلئے کوڑے کھائے ، گولیاں کھائیں اور جلا وطنی قبول کی۔

جمہوریت اور اس پارلیمنٹ پر جب بھی برا وقت آیا ہم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے۔2008ء میں برسر اقتدار آنیوالی حکومت نے اپنی مدت پوری کی، سید خورشید شاہ نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی اقتدار سنبھالتے وقت تقریر پڑھ کر سنائی، آرٹیکل 6 کا دعوی ہم نے نہیں کیا اور نہ ہی کیسز بنائے تھے، ہم نے اپنے لیڈر کو اکیلا نہیں چھوڑا گھروں میں نہیں بیٹھ گئے ایک وزیر نے کہا کہ مشرف باہر چلا گیا تو سندھی اور بلوچوں کو کیا جواب دینگے؟۔

ایک وزیر نے کہا کہ مشرف عدالت کا سامنا کئے بغیر چلا گیا تو وزارت سے استعفیٰ دیدونگا اور سیاست بھی چھوڑ دونگا۔ سپیکر کی سربراہی میں ڈھائی گھنٹے میٹنگ ہوئی جس میں تمام امور پر بات چیت ہوئی سب سے پہلے بیس جنوری 1975ء کو تین بلوں کی منظوری کیلئے مشترکہ اجلاس بلایا گیا ، دس جنوری 1975ء کو دوسری مرتبہ مشترکہ اجلاس قانون سازی کیلئے بلایا گیا پھر تیسری مرتبہ 21 مارچ 2012ء کو مشترکہ اجلاس قانون سازی کیلئے بلایا گیا یہ چوتھی مرتبہ مشترکہ اجلاس قانون سازی کیلئے بلایا گیا ہے، لہذا یہ پہلا مشترکہ اجلاس نہیں جو قانون سازی کیلئے بلایا گیا ہے ، مشترکہ اجلاس ختم ہونے کے بعد حکومت اپوزیشن مل کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں تاکہ دونوں ایوانوں میں مسائل اسی جگہ حل ہوسکیں ، سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ قومی اسمبلی چیئرمین سینیٹ اور ارکان سینیٹ کا بھرپور احترام کرتی ہے، یہاں سے ایسی کوئی رولنگ نہیں آئیگی جس سے دونوں ایوانوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ بل آئین کے تحت صدر مملکت نے بلایا ہے ایک طرف ہم قانون سازی کررہے ہیں اور دوسری طرف ایک قانون شکن کو ملک سے باہر بھیج رہے ہیں ، اس پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے ، خورشید شاہ نے کہا کہ سب کو اس اقدام سے تکلیف پہنچی ہے وہ شخص قانون سے بالاتر تھا جو ملک سے چلا گیا ، مشرف کا وکیل کہتا ہے کہ ڈیل ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ مشرف کیخلاف کارروائی 12 اکتوبر 1991ء سے ہونی چاہئے تھی اور ان تمام لوگوں کو پکڑا جانا چاہئے تھا اور مشرف کا ساتھ دینے والے چیف جسٹس سمیت سب کو گرفتار کرنا چاہئے تھا، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے کافیصلہ کیا گیا۔

سینیٹراعتزاز احسن نے کہا کہ صرف پرویز مشرف ملک سے فرار نہیں بلکہ وزیراعظم بھی اس ایوان سے چلے گئے ہیں ۔ اس ایوان میں مینا بازار لگا ہوا ہے سپیکر نوٹس لیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مشرف نے ہمارے منہ پر طمانچہ مارا اس پر تفصیل سے بات ہونی چاہئے ہم نے آئین کو باعزت بنانا ہے ۔