ناراض بلوچوں کو دہشت گرد سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا، بلوچ لیڈر خود تو لندن اور دبئی میں عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں تاہم عام بلوچوں کو ہتھیار پکڑادیا ہے،وزیرداخلہ بلوچستان

کراچی میں اگر گدھا گٹر میں گرجائے تو گھنٹوں لائیو کوریج ہوتی ہے، بلوچستان کی خبر محض ٹکر تک محدود ہے، بلوچستان آدھا پاکستان ہے، کم از کم خبرنامہ میں 5 منٹ ہی دیدیا کریں،پریس کلب میں بات چیت

منگل 19 اپریل 2016 22:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19 اپریل۔2016ء) بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراربگتی نے کہاہے کہ ناراض بلوچوں کو دہشت گرد سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ بلوچ لیڈر خود تو لندن اور دبئی میں عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں تاہم عام بلوچوں کو ہتھیار پکڑادیا ہے۔ مذاکرات سے اچھا کوئی راستہ نہیں ہے۔ پرامن بلوچستان کے نام سے حکمت عملی بنائی ہے۔

اس کے باوجود کہ بلوچ سرداروں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ہم ڈائیلاگ کرنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں اگر گدھا گٹر میں گرجائے تو گھنٹوں لائیو کوریج ہوتی ہے۔ بلوچستان کی خبر محض ٹکر تک محدود ہے۔ بلوچستان آدھا پاکستان ہے۔ کم از کم خبرنامہ میں 5 منٹ ہی دیدیا کریں۔ فیصل آباد میں ہونے والا کرائم آج کل بلوچستان سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان بڑی حد تک پرامن بن چکا ہے۔

مذہب کے نام پر دہشت گردی کی کمرتوڑ دی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع بلوچتان حکومت کے ترجمان انورکاکڑبھی موجود تھے ۔ سرفرازبگتی نے کہاکہ بلوچستان میں کوئی بھی ملٹری آپریشن نہیں ہورہا۔ ملٹری کو استعمال کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ہم نے ابھی ملٹری کو استعمال نہیں کیا۔

ہماری فورس اور پیرا ملٹری ہی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے کافی ہے۔انہوں نے کہاکہ دیگر ادارے تو اپنی غلطی نہیں مانتے لیکن میڈیا کو بہرحال غلطی ماننی چاہئے۔ میڈیا کوئٹہ کے ہوٹل سے ہو کر واپس آجاتا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ ہمیں کوئی جانے نہیں دیتا۔ میڈیا آئے، بلوچستان میں جہاں کوریج کرنا چاہے کرے۔ کوئی روکے تو ہمیں بتایا جائے۔میں بلوچ ہوں لیکن پاکستان زندہ باد کہنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔

انہوں نے کہاکہ نان اسٹیٹ ایکٹر کی بات کی جاتی ہے لیکن کھل کر کوئی نہیں بولتا۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں میڈیا میں ملک کے خلاف بات کرنے والوں کو پرائم ٹائم دیا جاتا ہے۔ ملالہ کو بریکنگ نیوز میں چلایا جاتا ہے لیکن نائمہ بلوچ 30 سال سے پڑھا رہی تھی ان کے قتل کی خبر تک نہیں چلی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کا معاملہ پیچیدہ اور بحث طلب ہے۔

بلوچستان میں حقوق کی کوئی جنگ نہیں۔ مفادات کی جنگ ہے۔ را کی فنڈنگ سے دہشت گردی کی جارہی ہے۔ وزیرداخلہ نے کہاکہ فیصل آباد میں ہونے والا کرائم آج کل بلوچستان سے زیادہ ہے۔ بلوچستان بڑی حد تک پرامن بن چکا ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کی کمرتوڑ دی گئی ہے جبکہ کالعدم لشکر جھنگوی کے اہم رہنما مارے جاچکے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے دیکھا ہے۔

یہی بلوچستان کا المیہ ہے۔انہوں نے کہاکہ قلات اسٹیٹ کے نواب نے اپنی کتاب میں پاکستان سے الحاق کو ایمان کا حصہ لکھا ہے۔ تشدد کا راستہ اگر کسی نے کم ترقی یافتہ ہونے کے باعث اپنایا ہے تو یہ غلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی اشرافیہ کے بچے بڑے شہروں میں پڑھتے اور رہتے ہیں مگر غریب کو کچھ میسر نہیں ہے۔ بلوچستان میں ہمیں تین طرح کے جرائم کا چیلنج درپیش ہے، ڈکیتی، چھینا جھپٹی اور دیگر کرائم کا سامنا کوئٹہ میں زیادہ تھا۔

دوسری قسم مذہبی شدت پسندی اور ذات برادری کے جھگڑے ہیں۔ تیسرا کرائم قوم پرستی اور پیٹ پرستی کے نام پر جاری جنگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پولیس دلبرداشتہ ہوچکی تھی۔ ہم نے بلوچستان پولیس کو 100 فیصد سیاست سے پاک کردیا ہے۔ پولیس میں بھرتی اور تقرریاں 100 فیصد میرٹ پر ہوتی ہیں۔ اس وقت بلوچستان کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔

ہم نے کوئٹہ ماڈل کے نام سے ایک حکمت عملی ترتیب دی ہے جو ہر ضلع میں زیر امر ہے۔ ہم نے اغواء، ڈکیتی اور ہائی وے کرائم کو کنٹرول کرلیا ہے۔ بلوچستان سے ایک لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ بلوچستان کے جتنے سابق وزرائے اعلیٰ تھے انہوں نے بیرون ملک عیش وعشرت کی زندگی گزاری۔ غریب بلوچ آج بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اپنی ذاتی جنگ لڑنے والوں کو ناراض بلوچ کہا گیا۔

ناراض بلوچوں کو دہشت گرد سمجھتا تھا اور سمجھتا رہوں گا۔ ناراض بلوچوں کی رہنمائی کرنے والے خود ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ علیحدگی پسند بلوچوں نے مذاکرات کی دعوت کو قبول کرنے کے باوجود قتل وغارت گری جاری رکھی جن کو ولن ہونا چاہئے وہ ہیرو اور جو ہیرو ہیں انہیں ولن بنادیا گیا ہے۔ ماما قدیر بلوچ کو سب نے ویلکم کیا۔ آپ کا بڑا دل ہے۔ لاپتہ بلوچوں کا معاملہ تاحال پیچیدہ ہے۔

میرے پاس کوئی جناح پور کا نعرہ مارتا ہوا آئے تومیں انہیں ویلکم نہیں کروں گا۔ بلوچستان میں حقوق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ذاتی معاملہ ہے۔ غربت کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ استعمال ہورہے ہیں۔ بلوچستان کے متاثرین کے لئے کیمپ قائم کئے ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ کیس کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ کا کیس اکبر بگٹی نے خود کرایا تھا، اس میں اکبر بگٹی کے لوگ ہی ملوث تھے۔ کراچی میں بھی بہت سے راکے ایجنٹ موجود ہیں۔ بلوچستان سے گرفتار کل بھوشن ایک افسر ہے۔