پانامہ لیکس پر انکوائری کمیشن کیلئے اپوزیشن جماعتوں کا ٹی او آرز پر اتفاق ہو گیا

سب 15 نکات پر متفق ہیں،وزیراعظم کے فوری استعفیٰ کے مطالبے پر اتفاق نہ ہوسکا ،پاناما لیکس میں احتساب کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ہوگا ،چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی سربراہی میں بااختیار کمیشن بنایا جائے،پانا لیکس کی تحقیقات بین الاقوامی آڈٹ فرم سے کرائی جائے۔اجلاس میں فیصلہ۔۔اپوزیشن جماعتوں میں پاناما لیکس کے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیراعظم ابھی مجرم نہیں بنے تو پہلے استعفیٰ کیسے لے سکتے ہیں۔فاروق ستار،شیخ رشید ،اسدللہ بھٹو کی میڈیا سے گفتگو

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 3 مئی 2016 14:45

پانامہ لیکس پر انکوائری کمیشن کیلئے اپوزیشن جماعتوں کا ٹی او آرز پر ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔03 مئی 2016ء) : پانامہ لیکس نے پوری دنیا سمیت پاکستان کی سیاست میں بھی ہلچل پیدا کی جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے پانامہ لیکس کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹرمز آف ریفرنس پر اتفاق کرلیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بااختیار کمیشن بنایا جائے تاہم فوری طورپر استعفے کے مطالبے پر اتفاق نہ ہوسکا۔

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا ۔جس میں خورشید شاہ، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ، سینیٹر سعید غنی، نوید قمر اور سلیم مانڈی والا شریک تھے ،تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر، شیریں مزاری، عارف علوی، حامد خان اور عاطف خان نے اجلاس میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید،طارق بشیر چیمہ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، صاحبزادہ طارق اللہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، اے این پی سے غلام بلور، افتخار حسین، ایم کیوایم کے خالد مقبول صدیقی، کنور نوید جمیل اور میاں عتیق ،آفتاب خان شیر پاوٴ بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا نام آنے پر احتساب کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ہوگا۔

وزیراعظم اپنے ، خاندان کے اثاثے اور آمدن کا مشترکہ اجلاس میں آکر اعلان کریں ۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز کے متن میں کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے بااختیار کمیشن تشکیل دیا جائے، اگرکمیشن نہیں بنتا توٹی او آر کا سارا عمل پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے مکمل کیا جائے اور پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کے پاس ہو۔

ٹرمز آف ریفرنس کے متن میں کہا گیا کہ پاناما پیپرزانکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کے نام سے خصوصی قانون منظور کیا جائے اور صدارتی آرڈیننس سے بننے والے انکوائری کمیشن کو پارلیمانی تحفظ فراہم کیا جائے ۔ پانا لیکس کی تحقیقات بین الاقوامی آڈٹ فرم سے کرائی جائےاپوزیشن جماعتوں کے متفقہ ٹی آو آرزکے متن میں کہا گیا کہ انکوائری کمیشن 1956کے قانون کے تحت نہ بنایا جائے، بلکہ انکوایئری کمیشن کی تشکیل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہو۔

صدارتی آرڈیننس سے بننے والے انکوائری کمیشن کو پارلیمانی تحفظ فراہم کیا جائے۔ سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی تحقیقات کی جائیں۔پانامہ پیپرز انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کے نام سے ایک خصوصی قانون منظور کیا جائے۔ ٹی او آرزکے متن میں کہا گیا کہ اس قانون کو تشکیل دے کر اس کے تحت انکوائری کمیشن کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات بین الاقوامی آڈٹ فرم سے کروائی جائیں۔

جس کا انتخاب تشہیر کر کے اور بولی دے کر کیا جائے۔ اگر کمیشن نہیں بنتا تو ٹی او آر کا سارا عمل پارلیمانی پارٹی کے ذریعہ مکمل کیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کے پاس ہو۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مسترد کر دیا ہے اور پانامہ لیکس کے معاملے پر واحد حل جوڈیشل کمیشن ہے۔

انہوں نے کہاکہ تمام جماعتوں کا ٹی او آرز پر اتفاق ہو گیا ہے اور سب 15 نکات پر متفق ہیں، اپوزیشن کی کوئی جماعت پیچھے نہیں ہٹی ہے البتہ وزیراعظم کے استعفے پر 8 میں سے 6 جماعتیں متفق ہیں۔ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ اپوزیشن جماعتوں میں پاناما لیکس کے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اتفاق ہوگیا ہے۔اپوزیشن کے اجلاس سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کوئی متنازعہ بات نہیں کرنا چاہتا وزیر اعظم کے استعفیٰ کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا کیونکہ اس پر کل بات ہوچکی ہے۔

میرے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی دوران حراست ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے جس کی شفاف تحقیقات کی جائیں، ٹی او آر کمیٹی بھی آفتاب احمد کے انتقال پر بات کریگی۔جماعت اسلامی کے رہنماء اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف ابھی مجرم نہیں بنے ان پر صرف الزام ہے۔الزام ثابت ہونے سے پہلے استعفیٰ کیسے لے سکتے ہیں۔