پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کے ٹی اوآز کامحور وزیراعظم ہیں لیکن حکومت آئین سے متصادم ٹی او آرزہرگزتسلیم نہیں کرے گی،الیکشن کمیشن کے نئے ممبران کی تقرری کیلئے نیا طریقہ کار بنانے اور ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل کاحق دینے کی تجویزسمیت نئی ترمیم کا ڈرافٹ اپوزیشن کے حوالے کردیاہے

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ خان کی صحافیوں سے گفتگو

منگل 10 مئی 2016 22:54

اسلام آباد ۔ 10 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔10 مئی۔2016ء) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کے ٹی اوآز کامحور وزیراعظم ہیں لیکن حکومت آئین سے متصادم ٹی او آرزہرگزتسلیم نہیں کرے گی،اس کے علاوہ ہرنکتہ پربات ہوسکتی ہے لگتاہے اپوزیشن حکومت پردباؤبرقراررکھنے کیلئے انکوائری کمیشن نہیں بنانا چاہتی ،الیکشن کمیشن کے نئے ممبران کی تقرری کیلئے نیا طریقہ کار بنانے اور ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل کاحق دینے کی تجویزسمیت نئی ترمیم کا ڈرافٹ اپوزیشن کے حوالے کردیاہے ، منگل کویہاں وزارت قانون میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صحافیوں کے ساتھ خصوصی گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے پانامالیکس کامعاملہ سامنے آتے ہی تحقیقات کیلئے تین روزمیں ٹی اوآز بنائے ، جس میں کسی بھی حوالے سے کوئی کمی یا خامی نہیں بلکہ ہمارے ٹی اوآرزمیں تمام امورکااحاطہ کیاگیاہے ، اس کے برعکس اپوزیشن نے ٹی اوارٓزبنانے پرتین ہفتے لگادئیے اوراس میں بھی صرف وزیراعظم کی شخصیت کو فوکس کیاگیاہے ،ان کاکہناتھاکہ اپوزیشن کے ٹی اوآرزمیں شہادتیں پیش کرنے کاسارابارمدعاعلیہ پرلگایاگیاہے حالانکہ شہادت کامسلمہ اصول ہے کہ جوالزام لگائے گا شواہد بھی وہی پیش کرے گالیکن یہاں معاملہ الٹاہے، تاہم یہ طے ہے کہ شہادت کے مسلمہ اصولوں کیخلاف اپوزیشن کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی ،جن ٹی او آرز کا محور میاں محمد نواز شریف کی ذات ہو ان پرمزاکرات بھی نہیں ہو سکتے ،ہم چاہتے ہیں کہ کک بیکس ہوں آف شورکمپنیاں ہوں یا قرضے معافی کے معاملات ، تمام ایشوز پر فیصلے کئے جائیں،آئین اور قانون کے مطابق سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو ، ہم اب بھی انتظار کر رہے ہیں کہ اپوزیشن ٹی او آرز پر مزاکرات کے لئے کو ئی کمیٹی بنائے، تاکہ بات چیت آگے بڑھے اس حوالے سے ہماری کئی سیاسی جماعتوں سے بات چیت چل رہی ہے ، دو روز قبل بھی ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر خزانہ کے ساتھ ملاقات کی ہے ،انہوں نے ٹی اوآرز کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات کے بارے میں کہا کہ اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات ہیں ، کچھ پانامہ لیکس کے ساتھ ساتھ کک بیکس اورکمیشن لینے کے الزامات کی تحقیقات کی بات کرتے ہیں کچھ صرف پانامہ لیکس کی تحقیقات تک محدود ہیں، لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ حکومتی ٹی او آرز کا دائرہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کی نسبت وسیع ہے،جس میں ملک کے تمام شہری بلکہ پاکستانی شناحتی کارڈکے حامل افراد بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں، کمپنیوں اور ٹرسٹ کی تحقیقات کابھی ذکرہے ، اس میں گواہان کوتحفظ دیاگیاہے ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پر میٹرو بس سروس میں کمیشن لینے کا الزام ہے تو ہم اس کی تحقیقات کے لئے تیار ہیں ،حکومت کی تجویز کردہ ٹی او آرز میں مجوزہ انکوائری کمیشن کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں ، ہم نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ انکوائری کمیشن کو ئی بھی پروسیجر اختیار کرسکتا ہے ،تما م ریاستی ادارے اس کے رحم وکرم پر ہونگے،کیبنٹ ڈویژن اس کو تحقیقات کے لئے سہولت فراہم کرنے کا پابند ہوگا ،کمیشن کے پاس وسیع اختیار ہوگا کہ وہ جو دستاویز ،یا ریکارڈ چاہے ، حاصل کر سکے گا، وزیر اعظم کی سوچ ہے کہ ایک ہی دفعہ تمام تر الزامات کی تحقیقات کی جائیں ، اس لئے ہم سب کو سپریم کورٹ اور اس کے فاضل ججز پر اعتبار کرنا چاہیئے ، اگرکمیشن بن جاتاہے توپانامہ لیکس کی تحقیقات میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں لگے گا، عدالتی کمیشن اگرچارماہ میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی لاتعداد حلقوں کی تحقیقات کرسکتاہے توپانامہ لیکس معاملہ کی تحقیقات بھی ہوسکتی ہیں انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ بارکے مطالبے پرہم نے کمیشن کیلئے کسی حاضرسروس جج کانام نہیں لیا بلکہ ریٹائرجج کی بات کی تھی ، لیکن اپوزیشن نے چیف جسٹس کانام لیا توہم تیارہوگئے ، پیپلزپارٹی نے معاملہ کی تحقیقات کے لئے پہلے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی بات کی ، ابھی اس پر بات ہی چل رہی تھی کہ مطالبہ آگیا کہ تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے ،انہوں نے اپوزیش کو دعوت دی کہ وہ دوبارہ حکومتی ٹی او آرز کا جائزہ لے اور اگر ان میں کوئی کمی بیشی ہے تو نشاندہی کرے ،لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اپوزیشن انکوائری کمیشن قائم ہی نہیں کروانا چاہتی بلکہ اس معاملہ کی آڑ میں حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہے ، انہوں نے کہا کہ امیدہے کہ اپوزیشن اور حکومت میں کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر سیٹلمنٹ ہو جائے گی ، اپنی وزارت اور آئینی ترامیم سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت متعدد آئینی ترامیم زیر غور ہیں ، جن میں الیکشن کمیشن کے نئے ممبران کی تقرری کے لئے نیا طریقہ کار اختیار کرنے سے متعلق ترمیم بھی شامل ہے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل کاحق دینے کی تجویزبھی زیرغورہے ، انہوں نے بتایا کہ 10جون کو الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران کی مدت ختم ہو رہی ہے ، اگر نئے طریقہ کار سے متعلق ترمیم منظور ہوگئی تو اس میں الیکشن کمیشن کا ممبر بننے کے لئے ریٹائرڈ جج ہونے کی شرط ختم ہو جائے گی اور نہ صرف ریٹائرڈ سرکاری ملازم بلکہ عام شہری بھی الیکشن کمیشن کے ممبر بن سکیں گے صوبے سرکاری ملازمتوں میں صوبائی کوٹہ میں توسیع کے خواہاں ہیں ،یہ معاملہ بھی زیر غور ہے ، اس طرح اسلام آباد کی عدلیہ میں کشمیر اور گلگت و بلتستان کے شہریو ں کے لئے کوٹہ مقرر نہیں ہے ، ان کا کوٹہ مقرر کرنے کے حوالہ سے بھی ایک آئینی ترمیم زیر غور ہے ۔