وزیر اعظم نواز شریف جلسے جلوس درس لیکن پارلیمنٹ کا بھی کوئی شیڈول ہونا چاہئیے، وزیر اعظم نواز شریف کو آج یہاں ہونا چاہئیے تھا۔ عوام کے ذہن میں‌ خلفشار وزیر اعظم کے خاندان اور وفاقی وزرا نے پیدا کیے، وزیر اعظم کو پانامہ لیکس پر قوم سے خطاب نہیں‌کرنا چاہئیے تھا، وزیر اعظم نواز شریف سے سات سوالات کیے گئے تو مار پڑی کہ ہم نے ڈکٹیشن دی ہے، مانتے ہیں‌کہ سب قانونی ہو گا لیکن اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ قائد حزاب اختلاف سید خورشید شاہ کا ایوان میں اظہار خیال

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 18 مئی 2016 11:30

وزیر اعظم نواز شریف جلسے جلوس درس لیکن پارلیمنٹ کا بھی کوئی شیڈول ہونا ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18مئی2016ء) : اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے ۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے سوالات وزیر اعظم نواز شریف کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے دئے تھے۔سولات کے جوابات نہ ملنے پر ایوان سے واک آﺅٹ کیا ۔ جو مسئلے باہر حل نہیں ہو سکتے وہ یہاں ہوتے ہیں۔

اپوزیشن پانامہ پر بار بار بات کرتی رہی۔وزیر اعظم کے نہ آنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا، متعدد مرتبہ کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا حلقہ پارلیمنٹ ہے انہیں یہاں آ کر بات کرنی چاہئیے۔ اور پھر کفر ٹوٹا خدا خداکر کے، وزیر اعظم نواز شریف ایوان میں آئے ، جس پر ہم نے بڑے صبر کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کی وضاحت سنی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایوان کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا جس پر میڈیا میں یہ تاثر دیا گیاکہ اسپیکر کے کہنے پراپوزیشن نے بائیکاٹ ختم کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہم فیصلے باہر کرتے تھے اسی لیے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں ملی۔ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا شروع ہوا ہے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ اپوزیشن نے نہیں بلکہ یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسے ہونے چاہئیں انہیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن وزیر اعظم نواز شریف کو آج بھی ایوان میں موجود ہونا چاہئیے تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہم انتظار کرتے رہے کہ حقیقت سامنے آ جائے، نواز شریف کے بیٹوں نے کبھی پانامہ لیکس کا اعتراف کیا اور کبھی تردید کی۔

وزیر اعظم نواز شریف قوم سے خطاب میں اپنی فیملی کی وضاحتیں دیتے رہے جو ان کو نہیں دینی چاہئیے تھیں، وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئیے تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کو کہتے کہ وہ خود سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے بعد میاں صاحب اور ان کے خاندان پر اٹھنے والے سوالات میاں صاحب اور ان کے خاندان نے خود پیدا کیے، لندن فلیٹس پر نواز شریف اور ان کے خاندان کے متضاد بیانات تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بیانات میں تضاد آتا رہا۔ لوگوں کے ذہنوں میں خلفشار وزیر اعظم نواز شریف اور وفاقی وزرا نے پیدا کیا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ چلوہم مان لیتے ہیں کہ تمام چیزیں قانونی ہوں گی لیکن اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ جو یہاں ہو گا یہیں کا رہے گا اور یہیں مرے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا گلف اسٹیل میں پیسے اسٹیٹ بنک کی اجازت سے گئے؟ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر کے بعد پتہ چلا کہ گلف اسٹیل بھی کوئی بلا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کو ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی سننا چاہئیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب پبلک پراپرٹی ہیں ، اس ملک کا آئین کہتا ہے کہ ہمیںاپنے تمام اثاثے بتانے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ ہمیں صادق و امین ہونا ہے۔ ہم نے وزیر اعظم نواز شریف کو ڈکٹیشن نہیں دی بلکہ ان سے وضاحت طلب کی ہے۔ ہم نے سات سوالات کیے تو ہمیں مار پڑی اور کہا گیا کہ ہم نے ڈکٹیشن دی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چودہ سال میں وزیر اعظم نوا زشریف نے چھ لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا،1994میں وزیر اعظم نواز شریف نے2700روپے ٹیکس دیا۔1997میں محض پچاس ہزار روپے ٹیکس دیا گیا۔ 23سال میں بارہ کمپنیوں نے صرف ایک ارب روپے ٹیکس دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیر عظم نوا زشریف سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ ہم تو یہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے اتنا پیسہ باہر کیسے بھیجا؟ لندن فلیٹس کے لیے پیسہ کہا ں سے آیا؟ اتفاق فاﺅنڈری قومیالی گئی تو پیسہ کہاں سے آیا؟اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سید خورشید شای نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عوام فیصلہ کرے کہ آخر کیوں ہم غربت کی لکیروں سے نہیں نکل رہے۔

کیونکہ جب امانت میں خیانت ہوتی ہے تو قوم بھی پریشان ہو جاتی ہے۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمارے قرضے کی وسط منظور کر دی ہے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے ملک میں کتنی غربت ہے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے بیٹے باہر کام کرتے ہیںتو ان کی قومیت بھی یورپ ہی کی ہونی چاہئیے، میرا بیٹا اگر لندن یا امریکہ میں رہے تو بھی وہ میرا بیٹا ہی ہے۔

اس ملک کی دولت اور یہاں کا انفرااسٹرکچر حکومت کے پاس امانت ہوتی ہے۔ جو بچے کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور یہاں ٹیکس نہیںدینا چاہتے تو ان کے پاس پاکستان کی قومیت کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم نواز شریف کو کرپٹ ثابت نہیں کرنا چاہتے ہم کہتے ہیں کہ آﺅ مل کر بیٹھیں اور انکوائری کمیشن کا ضابطہ اخلاق اور ٹی اوآرز طے کریں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ آﺅ قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کو اختیارات دیں تاکہ مسائل حل ہو سکیں۔صرف وزیر اعظم نواز شریف کا احتساب کیوں ہمارا بھی ہونا چاہئیے۔