یہ سیاسی استحکام کا ثمر ہے کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، مجموعی طور پر آج تک جتنے ترقیاتی منصوبے اور خصوصی طور پر صرف ان تین سالوں کے منصوبوں کی ہی فہرست بنا لیں تو اتنے کسی بھی اور حکومت کے نہیں جتنے ن لیگ نے بنائے، ایسی سیاست کی جائے جس میں پاکستان کی بہتری ہو، ذات یا جماعت کی نہیںِ ، ہمارے راستے میں کھڑی کی گئیں رکاوٹوں کے باوجود کامیابی کا سفر جاری رکھا، طیاروں کی خریداری کے معاملے پر امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں اختلافات موجود ہیں ، ہماری کوشش ہے سفارتی سطح پر اس معاملے کو حل کر لیں ،پاکستان تمام ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا لاہور ایڈیٹرز کلب کے ز یر اہتمام خصوصی نشست سے خطاب

جمعہ 20 مئی 2016 22:57

لاہور۔20 مئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔20 مئی۔2016ء ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ یہ سیاسی استحکام کا ثمر ہے کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، مجموعی طور پر آج تک جتنے ترقیاتی منصوبے اور خصوصی طور پر صرف ان تین سالوں کے منصوبوں کی ہی فہرست بنا لیں تو اتنے کسی بھی اور حکومت کے نہیں جتنے ن لیگ نے بنائے، ایسی سیاست کی جائے جس میں پاکستان کی بہتری ہو، ذات یا جماعت کی نہیںِ ، ہمارے راستے میں کھڑی کی گئیں رکاوٹوں کے باوجود کامیابی کا سفر جاری رکھا، طیاروں کی خریداری کے معاملے پر امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں اختلافات موجود ہیں ، ہماری کوشش ہے سفارتی سطح پر اس معاملے کو حل کر لیں ،پاکستان تمام ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روزیہاں مقامی ہوٹل میں منعقدہ لاہور ایڈیٹرز کلب کے ز یر اہتمام خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔خصوصی نشست میں مجیب الرحمان شامی،ضیاشاہد،سلمان غنی،بیدار بخت بٹ،جاوید فاروقی،سرفراز سید،سعید آصی،سجاد میر،اسداللہ غالب،شفقت محمود،ادیب جاودانی سمیت دیگر ایڈیٹرز بھی موجود تھے۔ پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملکوں میں دو بڑی جنگیں لڑی گئیں،سویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے اور سویت یونین کے افغانستان سے نکلنے تک کے اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔

ان دونوں جنگوں نے پاکستانی سماج اور ثقافت کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ ان کے منفی اثرات بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ پہلی جنگ میں ہمیں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر اور دوسری جنگ ہمیں دہشت گردی کے سپرد کر گئی۔انہوں نے کہاکہ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری سونپی گئی تو ہمارے قائد محمد نوازشریف کی پہلی ترجیح تھی کہ عدم استحکام کا شکار ہونے والے پاکستان کو مستحکم بنایا جائے، سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور ہچکولے کھا تی معیشت کیلئے مضبوط بنیادیں فراہم کریں، جہاں بچوں کیلئے تعلیم بھی ہو  بیماری کی حالت میں دوا بھی ملے اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن تھا جب تک سیاسی استحکام کو یقینی نہ بنایا جائے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اکثریت میں ہونے کے باوجود دیگر صوبوں میں حکومت بنانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ جب کوئی سیاسی جماعت حکومت بنا کر اسلام آباد پہنچ جاتی ہے وہ صوبوں میں بھی حکومت بنانے کی کوشش کرتی ہے، (ن)لیگ کی حکومت چاہتی تو کے پی کے میں اپنا وزیراعلی بٹھا سکتی تھی اسی طرح بلوچستان میں بھی کلچر کے برعکس حکومت بنا نے کی پوزیشن ہونے کے باوجودپاکستان مسلم لیگ (ن)نے حکومت نہیں بنائی۔

انہوں نے کہاکہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے باوجود کوئی خلل نہیں ڈالا گیا، بلوچستان میں دو بڑے فریق تھے بلوچ اور پختون دونوں کی اپنی سیاسی جماعتیں ہیں ان کی شکایات تھیں  ہماری حکومت نے دونوں فریقین کے سیاسی عمائدین کوحکومت بنانے کا موقع دیا، جس کے بعد بلوچستان میں مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے، قومی پرچم بلند ہوا  قومی ترانہ گونجنے کی آواز یں بھی آنے لگی، اس سب کیلئے قربانی ہماری حکومت نے دی جس کا ثمر پاکستان کو ملا، (ن) لیگ نے یہ فرض قربانی دیکر سرانجام دیا جس کی ہمیں بہت خوشی ہے، انہوں نے کہا کہ ایسی سیاست کی جائے جس میں پاکستان کی بہتری ہو  ذات یا جماعت کی نہیں۔

پرویز رشید نے کہا کہ سی پیک کیلئے جو پیکیج چائنہ سے ملا ہے وہ 6 ماہ پہلے مل جاتا  چینی صدر کا پاکستان میں دورہ ہوا وہ چھ ماہ پہلے ہو جاتا تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہی ہونا تھا لیکن ہم نے کبھی ان رکاوٹوں کو شکوے کے طور پر استعمال نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر الزام لگایاگیا کہ منظم دھاندلی کے ذریعے فیصلہ اپنے حق میں کروا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی گئی ہے،ہم نے دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی خط لکھ دیا اگر کنٹینر سے وہ تقریریں نہ کی جاتیں تو کمیشن بن جاتا اور ہمارے اوپر لگایا گیا داغ بھی جلد دھل جاتا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے حکومت کیخلاف ہونیوالی تمام رکاوٹوں کو اپنی حکمت عملی سے دور کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مثبت تبدیلی آئی ہے اور اب سوال کیا جاتا ہے کہ بجلی کے کارخانے کب تک مکمل ہونگے،کراچی لاہور موٹر وے کب تک پایہ تکمیل تک پہنچے گی، گوادر بندرگاہ کب فعال ہو گی،یہی وہ کامیابیاں تھیں جن کے ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود ہم نے کامیابیوں کا سفر جاری رکھا۔

پرویز رشید نے کہا کہ یہ سیاسی استحکام کا ثمر ہے کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر آج تک جتنے ترقیاتی منصوبے اورخصوصی طورپر صرف ان تین سالوں کے منصوبوں کی ہی فہرست بنا لیں تو اتنے کسی بھی اور حکومت کے نہیں ہیں جتنے ن لیگ نے بنائے۔ انہوں نے کہاکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مختلف جگہوں پر پاور پلانٹ لگائے گئے ہیں جہاں سے بہت جلد بجلی کی پیدوار شروع ہو جائے گی، آج 16 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے لیکن ہماری ضرورت 19 ہزار میگا واٹ ہے، ٹرانسمیشن لائنز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال صورتحال بہتری ہوئی ہے، توانائی کے جن منصوبوں پر ہم کام کر رہے ہیں ان میں سے متعدد 2018ء تک مکمل ہو جائیں گے جو ہماری ضرورت سے بھی 7 ہزار میگا واٹ بجلی اضافی پیدا کررہے ہونگے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے بجلی کے ان منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے، ہم یہ کام سیاسی بنیادوں پر نہیں کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ آج ہم پر بدعنوانی کا الزام لگایا جاتا ہے ہم تمام مشکل حالات کے باوجود اس سیاسی عدم استحکام کو سیاسی استحکام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ،پاناما پیپرز پر وزیراعظم نے مطالبہ سے بھی پہلے کمیشن قائم کردیا لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے،وزیراعظم نے ایسے ججز کے نام دیئے جنہوں نے اپنی ساری زندگی نیک نامی سے گزاری لیکن ان کے کردار پر اس قدر گرد اڑائی گئی کہ انہوں نے اپنے قدم پیچھے کر لئے اور ایسے کثافت زدہ ماحول میں آنے سے معذرت کر لی۔

ایک اور سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ ہم پر ہمیشہ الزامات لگتے رہے کہ ہم نے تجوریاں بھر لیں ،کیشن کمایااور بینکوں کے قرض واپس نہیں کئے،لیکن حکومت نے کمیشن کیلئے جو ٹی او آر بنا کردیئے ان میں ان تمام الزامات کے احتساب کی شقیں شامل تھیں جو الزامات گزشتہ 30 سال سے ہم پر لگائے گئے لیکن ان تمام کو بھی نامنظور کر دیا گیا اور جو ٹی اوآرز اپوزیشن کی طرف سے آئے وہ صرف اور صرف ذاتیات پرمبنی تھے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا سیاست نے ملک کو نقصان پہنچایا اور اب ملک مزید نقصانات کا متحمل نہیں ہو سکتا