کرپشن اور نااہلی کی ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ، ان کاخاتمہ کرکے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیاجاسکتاہے، گڈ گورننس کیلئے رویوں میں تبدیلی اور خوداحتسابی کا عمل ناگزیر ہے،مربوط نظام عدل کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے ،ججز مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں،ان کے رویے مثبت ہونے چاہئیں ، عدالتوں میں 60فیصد زیر التواء کیسز کی بڑی وجہ سرکاری اداروں کی نااہلی ،منفی سوچ اور کرپشن ہے، 20فیصد مقدمات بددیانتی، انا پرستی اور مقدمہ برائے مقدمہ کا رحجان ہیں،عدلیہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نظام عدل میں بہتری لائی جا سکتی ہے ،اس سلسلے میں دیگر ممالک کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا جوڈیشل کانفرنس سے خطاب چیف جسٹس آف پاکستان کو چیف جسٹس آزادکشمیر کی جانب سے شیلڈ اور تحائف پیش

ہفتہ 21 مئی 2016 19:59

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21 مئی۔2016ء ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ کرپشن اور نااہلی کی بیماری ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور یہ ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، کرپشن اور نااہلی کو ختم کر کے ہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ،گڈ گورننس کے قیام کے لیے رویوں میں تبدیلی اور خوداحتسابی کا عمل ناگزیر ہے ،مربوط نظام عدل کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے ،ججز مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں انکے رویے مثبت ہونے چاہئیں ،پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں 60فیصدکیسز کے طویل مدت سے زیر التوا ء ہونے کی سب سے بڑی وجہ سرکاری اداروں کی نااہلی ،منفی سوچ اور کرپشن ہے جبکہ 20فیصد مقدمات بددیانتی، اناء پرستی اور مقدمہ برائے مقدمہ کا رحجان ہے۔

(جاری ہے)

عدلیہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نظام عدل میں بہتری لائی جا سکتی ہے جبکہ دیگر ممالک کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔بار عدالتی نظام کا اہم جزو ہے اس لیے اسکے ارکان کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ وہ ہفتہ کو یہاں آزادکشمیر جوڈیشل کانفرنس 2016سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔اس موقع پر چیف جسٹس عدالت العظمیٰ آزادجموں و کشمیر جسٹس محمد اعظم خان ،چیف جسٹس عدالت العالیہ آزادجموں و کشمیر جسٹس غلام مصطفی مغل نے بھی خطاب کیا۔

جبکہ تقریب میں جج صاحبان سپریم کورٹ آف پاکستان ، جج صاحبان سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ وشریعت کورٹ آزادجموں وکشمیر، ججز ڈسٹرکٹ وسیشن کورٹس،تحصیل وضلع قاضی صاحبان،ایڈووکیٹ جنرل آزادکشمیر، وائس چیئرمین بار کونسل، صدر سپریم کورٹ وہائی کورٹ بار، صدر سینٹرل بار ،صدور ڈسٹرکٹ بارز،انسپکٹر جنرل پولیس بشیر میمن،ڈرافٹسمین محکمہ قانون رزاق احمد ندیم نے شرکت کی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کرپشن ہمارے معاشرہ کو دیمک کی طرح ختم کر رہی ہے جس کے خاتمہ کے بغیر ترقی وخوشحالی ممکن نہیں۔مہذب معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے لیے نظام عدل کا غیر جانبدار اور مضبوط ہونا ضروری ہے۔موثر نظام عدل کے بغیر معاشرہ بدنظمی اور بربادی کا شکار ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سماعت کے دوران جج صاحبان کو فریقین کے ساتھ اپنا رویہ مثبت رکھنا چاہیے اور خوف خدا،تحمل مزاجی اور خوش اخلاقی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک بنیادی معاشرتی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا جا سکتاایک فعال معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ایک جج کا منصب بڑے رتبے کا حامل ہوتا ہے یہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ رویوں میں ضروری تبدیلی لائیں اور آئین وقانون کے تقاضوں کو پورا کریں۔عدالتوں میں آنے والوں کی زیادہ تر تعداد زیادتیوں کے شکار افراد کی ہوتی ہے انکے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جج اپنے آپ کو حاکم نہ سمجھیں بلکہ وہ عوام کے خادم ہوتے ہیں اور انکی تنخواہوں کا بوجھ بھی عوام برداشت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں جلد انصاف کی فراہمی اسی صورت ممکن ہے جب جج صاحبان لگن،تندہی اور عبادت سمجھ کر اپنے فرائض سرانجام دیں۔انہوں نے کہا کہ بار عدالتی نظام کی بہتری کے لیے عدلیہ کے ساتھ تعاون کریں اور ججز پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہ کریں تاکہ عدالتی کارروائی خوشگوار ماحول میں مکمل ہوسکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر سپریم کورٹ جسٹس محمد اعظم خان نے کہا کہ ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے ایک فعال عدالتی نظام کا ہونا انتہائی ضڑوری ہے۔ا نصاف کے معیار کا انحصار ججز کے کام کرنے کی صلاحیت ،ججز کے رویے اور مجموعی عدالتی ماحول کے علاوہ بار سے ملنے والی معاونت پر بھی ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ عدالتی نظام میں لیگل ایجوکیشن بھی شامل ہے۔

ججز کی تربیت بھی لیگل ایجوکیشن کا حصہ ہے۔ آزاد جموں وکشمیر ججز کی تربیت کا معقول نظام نہ ہے۔ پاکستان کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے درخواست کر کے ڈسٹرکٹ جج صاحبان، سول جج صاحبان اور قاضی صاحبان کو تربیت کے لیے بھجوایا جا تاہے کی مناسب تربیت نہیں ہو پا رہی جوکہ مقدمات کے انفصال میں تاخیر کی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوانین میں ضابطہ کار کی پیچیدگیان مقدمات کی انفصال می ں غیر ضروری طوالت کا باعث بنتی ہیں۔

موذوں ترامیم کے ذریعے مقدمات کے جلدی انفصال کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ ججز کی تعداد میں کمی ہے۔ مقدمات کی تعداد میں ہر گز رتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جبکہ ججز کی تعداد میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ جبکہ عدلیہ کیلئے مناسب عمارات بھی موجود نہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے عدالتی عملہ کی بھی کمی ہے۔ جو مقدمات کے جلد انفصال میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ عدالتی نوٹسز اور سمن ہاکی تعمیل کروانے والے عملہ کے لیے فنڈز کی کمی اور مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نوٹسز اور سمن ہا کی بروقت تعمیل نہیں ہو پاتی۔انہوں نے کہا کہ فوجداری نظام انصاف کی بہتری کے لیے پولیس کے تفتیشی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔

تفتیشی افسران انتہائی تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ غیر تربیت یافتہ تفتیشی افسران کی جانب سے سے کی گئی تفتیش کی بنیاد پر مقدمات کا درست فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ تفتیشی ایجنسیز سے منسلک پولیس افسران کا ایک بالکل الگ نظام ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دیگر فرائض کی انجام دہی سے منسلک پولیس افسران مقدمات کی بروقت تفتیش مکمل نہیں کر سکتے ۔

مقدمات بروقت چالان نہیں ہو پاتے۔انہوں نے کہا کہ آزادجموں وکشمیر میں فورنزک سائنس لیبارٹری موجود نہ ہے جس کے بغیر فوجداری نظام انصاف بہتر نہیں ہو سکتا ۔ فورنزک سائنس لیبارٹری کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کی انفصال میں تاخیر کا ایک بڑا سبب ابتدائی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک وکلا کی جانب سے التوا لینا بھی ہے ماسوائے ناگزیر حالات کے مقدمات میں التوا نہیں دیا جانا چاہیے تاکہ تاخیر سے بچا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مقدمات کے فیصلہ جات میں تاخیر سے بے چینی ،عدم اطمینان اور عدم برداشت کا رویہ جنم لیتا ہے جس کی بنا پر بسا اوقات لوگ عدالتوں سے مایوس ہو کر قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور مقدمہ بازی میں اضافہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ عدالتی نظام کا اہم حصہ ہے اس کا کردار بروقت فیصلہ جات میں انہتائی اہم ہے کیونکہ عوام کا اولین واسطہ براہ راست ابتدائی عدالتوں سے ہی پڑتا ہے۔

چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس غلام مصطفی مغل نے کہا کہ آزادکشمیر میں زیر التواء کیسز کی تعداد دیگر صوبوں سے بہت کم ہے۔انہوں نے کہا کہ اسوقت عدالت العالیہ، شریعت کورٹ اور عدالت ہا ماتحت میں 45350کیسزبقایا ہیں جن کی شرح پنجاب اور دیگر صوبوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

نظام عدل بہتر نہ ہو تو معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ سے لوگوں کی بے پناہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں اس لیے ججز کو غیر جانبدار اور رول ماڈل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جب تک تمام ادارے معاونت نہیں کریں گے گے تو بروقت انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ نظام عدل درست نہ ہوتو معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے اور معاشرہ اعتدال سے ہٹ جائے تو پھر عدالتیں بھی غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ تقریب کے آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو چیف جسٹس آزادکشمیر جسٹس محمد اعظم خان نے شیلڈ اور تحائف جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دیگر جج صاحبان کو آزادکشمیر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز نے شیلڈ ز اور تحائف پیش کیے۔