حکومت کا بجٹ خسارا دو ہزار ارب اور ہمارے شیڈوبجٹ کاخسارا ایک ہزار ارب کا ہوگا، ڈاکٹر فارو ق ستار

شیڈو بجٹ میں 34سو ارب کے اضافی وسائل دیئے گئے جس میں مرکز کے پاس بھی پانچ سو ارب اضافی بچیں گے مقامی ہوٹل میں ایم کیوایم کے وفاقی شیڈو بجٹ پیش کرنے کی تقریب سے اظہار خیال

بدھ 1 جون 2016 23:12

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم جون۔2016ء) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیوایم اکنامک اور فنانس کمیٹی کی جانب سے تیار کیا گیا 2016-2017ء کا وفاقی شیڈو بجٹ پیش کردیا۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی بجٹ ساڑھے چار ہزارارب کے کل محاصل کا ہے ، ایم کیوایم نے اس کے مقابلے میں ریونیو کا بیس 8ہزار ارب رکھا ہے ، حکومت کے پاس 29سو ارب اورہم نے بجٹ میں 34سو ارب کے اضافی وسائل دیئے گئے ہیں۔

جس میں مرکز کے پاس بھی پانچ سو ارب اضافی بچیں گے ، حکومت کا بجٹ خسارا دو ہزار ارب کا ہوگا تو ہمارا بجٹ خسارا ایک ہزار ارب کا ہوگا ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے آئینی ، قانونی اور مالیاتی رجحانات کو دیکھ کر یہ چوتھا وفاقی شیڈوبجٹ پیش کیا اس کی کاپی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو روانہ کررہے اور ہمیں امید ہے کہ اسحاق ڈار جب وفاقی بجٹ پیش کریں گے تو ایم کیوایم کے شیڈو بجٹ کی مثبت تجاویز کو بھی شامل کریں گے۔

(جاری ہے)

ایم کیوایم کا یہ وفاقی شیڈو بجٹ برائے 2016-17ڈاکٹر فاروق ستار نے مقامی ہوٹل کے ہال میں منعقدہ تقریب میں پیش کیا جس میں انہوں نے ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کے ذریعے بجٹ کے اعداد و شمار بھی بتائے ۔ اس موقع پر سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم پارلیمانی لیڈرسید سردار احمد، نامزد حق پرست میئر کراچی وسیم اختر ، ڈپٹی میئر ارشد وہرا ، رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین سفیان یوسف بھی موجود تھے اس کے علاوہ صنعتکار سراج قاسم تیلی ، یونس بشیر ، پاکستان کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے عتیق الرحمن ، اپٹما کے جنرل سیکریٹری سلیم صالح ، حاجی شفیق الرحمن ، اکرم صدیقی ، انجینئر مجید اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں ۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیوایم کی جانب سے وفاقی شیڈو بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں حکومت کی گروتھ 6اور ہماری 8فیصد ہے ،اس مرتبہ کراچی میں شیڈو بجٹ پیش کررہے ہیں جو پاکستان کی معیشت کا انجن ہے اس سے قبل تین مرتبہ ہم نے شیڈو بجٹ اسلام آباد میں پیش کئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کا وفاقی شیڈو بجٹ دراصل قائد تحریک الطاف حسین کا ایک معاشی ویژن ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں معیشت کی ترقی کا عمل مستقل بنیادوں پر قائم رکھاجائے اور اکنامی کی گروتھ قائم و دائم رہے ۔

ہمارے بجٹ کے دو بنیادی مقاصد ہیں جس میں ایک معیشت کی بحالی اور دوسری معیشت کو مستقل بنیادوں پر مضبوط کرنا ہے ۔ ایم کیوایم کی شیڈو بجٹ میں بنیاد یہ ہے کہ ماڈل اکنامی گروتھ بنائی جائے اور معیشت کو ترقی دی جائے ، پاکستان کے ایک ایک شہری کومعاشی ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کیلئے اکنامک پاور دی گئی ہیں ، یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام میں انویسٹمنٹ کی جائے تو یہ ہماری طاقت بن جاے گی اگر ہم نے نوجوانوں کو ضائع کردیا تو اکنامی پاور نہیں حاصل کرسکتے ۔

انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے وفاقی شیڈو بجٹ میں اقلیتی برادری کوپاکستان کی معیشت کی ترقی میں شامل کیا گیا ہے ،اورسیز پاکستانیوں کو معاشی ترقی کیلئے رول ماڈل بنایا گیا ہے اور انہیں پاکستان میں عملی کردار ادا کرنے کے ذرائع فراہم کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا وژن ایم کیوایم نے شیڈو بجٹ میں رکھا ہے اور قائد اعظم نے بھی کراچی کی اہمیت کو واضح کیا ہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کراچی کے عوام کا پاکستان کی ترقی میں کردار ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مشرقی پاکستان کا سانحہ اس لئے ہوا تھا کہ ہماری معاشی پالیسیاں غیر منصفانہ تھی ، ہم نے بنگالیوں کی مڈل کلاس کو نظر انداز کیااسی لئے وفاقی بجٹ میں کراچی کو نظر انداز کرکے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ کا پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کیاجائے، یہاں بلا امتیاز اور ہر سطح پر احتساب کا موثر نظام قائم کیاجائے تاکہ پاکستان آزاد و خود مختار بن سکے ۔

انہوں نے کہاکہ معیشت کے ہر شعبے کے ساتھ برابر کا سلوک ہونا چاہئے ، برتر اورکم تر سلوک ، امیر اور غریب کے فرق کو اور بڑھائے گا سارے پاکستانیوں کو ایک طرح کا پاکستانی سمجھنا چاہئے ، تعلیم ، صحت ، روزگار ، میرٹ اور انصاف پر مبنی معاشی نظام اور ٹیکسوں کا نظام بھی مساویانہ اور منصفانہ ہو ،صرف تنخواہ دار اور متوسط غریب طبقے پر ٹیکس لگا دینے سے پاکستان کی معیشت کااسٹیٹس کو اور جمود ختم نہیں ہوگاانہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر فالو اپ ہونا چاہئے اور اس کی اونر شپ پاکستان کے ہر شہری کو منتقل ہونی چاہئے ، صرف چوہدری نثار کو نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نیشنل ایکشن پلان کس چڑیا کا نام ہے اور اس کے کتنے پر ہیں ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہوگا تو نیشنل اکنامک پلان پر عملدرآمد کا موقع ملے گا ۔

معاشی ترقی میں تیزی سے اضافہ کرنا ہے تو سماجی ترقی میں تیزی ضروری ہے ، کالج ، پرائمری ہیلتھ کیئر اور ٹریننگ کیمپ ملک میں پھیلانے ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ہمارے ہاں کبھی کبھی ایف بی آئی آجاتی ہے لیکن ٹیکنالوجی ابھی تک ٹرانسفر نہیں ہوئی ہے جوضروری ہے ۔ غربت کاخاتمہ ، روزگار میں اضافہ قیمتوں میں کمی کرنا اور انسانی وسائل کی ترقی اور ایجوکیشن کو ٹھیک کرنے کیلئے ایم کیوایم کے شیڈو بجٹ میں ترجیحات حاصل ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ انرجی کرائسزکو بھی ختم کرنا ہے ، میٹرو بس ، میٹرو ٹرین کے بجائے توانائی کے مسئلے کا حل زیادہ ہم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تنخواہ دار طبقہ اکنامی کا بوجھ اٹھا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ تاجکستان اور ویتنام سے کریں ، ترکی جو دس پندرہ سال پہلے آزاد ہوا ہم سے آگے نہیں تھا وہ آگے ہوگیا ہے۔ ویتنام کی آبادی9، کروڑ ، تاجکستان کی ایک کروڑ 70لاکھ ہے اور ان ممالک اور پاکستان کی جی ڈی پی کا سائز ایک ہی ہے اور مجموعی قومی پیداور ویتنام اور تاجکستان سے کم ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ٹریڈ بیلنس میں چائنا اوپر ہے اور اب تھوڑا تاجکستان اور ویتنام بھی اوپر گیا ہے اور پاکستان کا ٹریڈ بیلنس پیچھے ہے ،کسی بھی قومی بجٹ کا مقصد یہ ہے کہ عوام مضبوط ہوں گے تو ریاست مضبوط ہوگی اور ہم نے بجٹ میں عوام کو مضبوط کرنے کے پہلو اجاگر کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بجٹ اگر پاکستان کے عوام کے امنگوں کے مطابق ہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بجٹ کیلئے لوکل گورنمٹ سے رائے لینا لازمی ہے ۔

مقامی اداروں سے اسحق ڈار ، احسن اقبال اور وفاقی وزرات خزانہ نے ترجیحات نہیں لیں اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ کی ایلوکیشن صرف سیاسی رشوت لینے اور لوگوں کی خرید و خروفت کیلئے استعمال کرتے رہے تو یہ پوری قوم کا سودا کرنے اور سیاسی بندر بانٹ کے مترادف ہے ، ایسا بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے اور ہم نے وفاقی حکومت کے بجٹ کے سامنے عوام دوست شیڈو بجٹ رکھا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ا ن ڈائریکٹ ٹیکس جو کہ 65فیصد اورڈائریکٹ ٹیکس 35فیصد ہے ، یہ بنیادی نکتہ ہے جس سے پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے اور عوام معاشی طور پر بااختیار ہوسکتے ہیں ، سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کریں ، ہم نے اس شرح کو17سے کم کرکے 9کیا ہے ۔ ان ڈائریکریکٹ ٹیکس کی شرح 42فیصد ہوجائے جہاں کوئی ٹیکس نہیں وہاں ٹیکس لگا کر مساوی ٹیکس کو یقینی بنایاہے ۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں موروثی کرپشن کیلئے کوئی سیاسی جماعت آواز نہیں اٹھاتی اس کیلئے ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح بڑھائیں اور ڈائریکٹ کی شرح کم کریں ، بجٹ میں سیکورٹی کیلئے رینجرز اور پولیس کے ساتھ عوام کو اونر شپ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پانچ سو خاندان موروثی سیاست کے ذریعے پیسہ اپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں ، اپوزیشن جماعتیں احتساب کی بات کرتی ہیں اور بجٹ میں احتساب کی بات نہیں کرتی تو سمجھ لیں کہ یہ سارے خزانے جیبوں میں بھر کر لے جاتے ہیں ، ہمارا وفاقی شیڈو بجٹ اس کا توڑ ہے اگر معیشت کا ہر شعبہ اپنے اپنے حصہ کا ٹیکس نہیں دیگا اور صرف تنخواہ دار طبقہ ، کار پورٹریٹ سیکٹر اور صنعتکار ٹیکس دیتے رہیں گے تو اس سے پاکستان کی معیشت کبھی بھی مستحکم نہیں ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے ساتھ ساتھ جو اربوں ڈالر پاکستانیوں کے سوئس بنک میں ہیں اس کا احتساب بھی ہونا چاہئے اور جو اربوں روپے کے قرضے لیکر معاف کرائے گئے ہیں اس کا بھی حساب ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ضروری اشیاء کی قیمتیں کم کرنے کیلئے عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ عوام کو دیاجائے ، اگر تیل کی قیمتوں کا فائدہ پاکستان کے شہریوں کو دیدیا گیا تو ہر گھر کا بجٹ مستحکم ہوجائے گا ، اسکول کی فیسیں ، علاج کرانا اور سیونگ کرنا بھی آسان ہوجائے اور چھوٹی سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک تیر سے کئی ہدف حاصل کئے ہیںِ پیٹرولیم لیوی کا بھتہ ختم کیاجائے اور پیٹرولیم کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو ختم کریں اس سے بجلی کے بل کم ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ، سروسز سیکٹر اور انرجی کی گروتھ ایک ساتھ ہونا چاہئے ، سندھ کوبجلی گھروں کا بیس بنا دیں کوئلے کے بجلی گھر پنجاب کے بجائے سندھ ، گوادر کراچی میں لگا ئے جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسٹیٹ بنک اور ساری ریگولٹری کی اتھارٹی اور دیگر اداورں کو خود مختاری حاصل ہے تو ان سب کو نواز شریف اور اسحاق ڈار کے فیصلوں کے تسلط سے آزاد ہوناچا ہئے ۔ ون ونڈو آپریشن سرمایہ کاری کیلئے ہو ، لگژری آئیٹم کوبینڈ کریں ، بیوروکریسی کے فیتے کو سرمایہ کاری کے عمل سے کاٹ دیں ہر چیزپیسے سے نہیں پالیسی سے ہوتی ہے ، خاص طور پرہم نے کہاہے سوک انفراسٹرکچر کو صحیح کیاجائے ، تاپی لائن کیلئے پیسہ کراچی اور سندھ والوں سے وصول کیاجارہا ہے ،پنجاب کیلئے گیس چاہئے تو تاپی کیلئے بھتہ ہم سے نہیں لیاجانا چاہئے جہاں گیس کی ضرورت ہے وہاں سے یہ ٹیکس لیاجائے ۔

پہلے سے ہی انڈسٹریل زون ہیں اورانہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ، کاٹج انڈسٹری کو زیادہ فروغ دیاجائے ۔ ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے بجٹ کا آؤ ٹ لیٹ حکومت سے زیادہ بہتر ہے ۔ حکومت کا ترقیاتی بجٹ 18فیصد ہے اور ہمارا ترقیاتی بجٹ 27سے 30فیصد ہے ۔کمیونیٹی پولیس کے بغیر جرائم ، دہشت گردی پر قابو ممکن نہیں ہے ۔ ہم نے بتایا ہے کہ ماس ٹرانزٹ پروگرام ، سرکلر ریلوے پراجیکٹ اور کے فور پروگرام ضروری ہیں ،ایجوکیشن او رہیلتھ پر جی ڈی پی کا پانچ پانچ فیصد جانا چاہئے ۔

فارن ڈائرکٹ انویسمنٹ میں اورسیز پاکستانیوں کارول بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ چیمبر آف کامرس انڈسٹریز کے مشوروں کو بھی بجٹ میں شامل کیاجائے ۔ سی پیک سلیکٹو پروگرام ہے ، اسے صرف گوادر تک بلوچستان کے راستے سے جانا ضروری ہے ، یہ پنجاب اور بلوچستان کا منصوبہ ہے ، اگر کراچی کے ساتھ منسلک کریں اور بسما سے لیکر کراچی تک کوریڈور ڈالیں تب یہ نیشنل منصوبہ ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں تجویز دی ہے کہ ہر مزور کی تنخواہ کم ز کم بیس ہزارر وپے ہونا چاہئے۔