وفاقی بجٹ ملکی بجٹ ہر گز نہیں ، یہ ایک من پسند صوبے کابجٹ ہے ، تمام مظلوم اکائیاں محروم ہیں یہ بجٹ عوامی بجٹ نہیں ، پی ایس ڈی پی میں بے نام منصوبے شامل کئے گئے ہیں،ایسے منصوبے ہیں جن کا تعلق کسی صوبے سے نہیں

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے سینیٹ میں بجٹ 2016-17 پر بحث میں اظہار خیال

جمعرات 16 جون 2016 22:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔16 جون ۔2016ء ) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے سینیٹ میں بجٹ 2016-17کے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ ملکی بجٹ ہر گز نہیں بلکہ یہ ایک من پسند صوبے کابجٹ ہے کیونکہ تمام مظلوم اکائیاں محروم ہیں یہ بجٹ عوامی بجٹ نہیں ہے ، پی ایس ڈی پی میں بے نام منصوبے شامل کیئے گئے ہیں ایسے منصوبے ہیں جن کا تعلق کسی صوبے سے نہیں اس میں نہ صوبوں کا تذکرہ ہے اور نہ ہی کوئی ضلع۔

سب سے بڑی گڑ بڑ یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایسے منصوبے رکھے گئے ہیں کہ جس کا نہ کسی صوبے سے تعلق ہے نہ ضلع سے نہ علاقے سے ہے ۔ بجلی اور پانی کے منصوبوں کیلئے 412ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں نیلم جہلم منصوبے کیلئے 51ارب روپے ، تربیلا ڈیم توسیعی منصوبے کیلئے 17ارب روپے ، بھاشا ڈیم کیلئے 32ارب ، گومل زام ڈیم کیلئے2ارب ، واسو ہائیڈل منصوبے کیلئے 42ارب روپے رکھے گئے ہیں اس PSDPمیں جو ٹوٹل سکیمز رکھی گئی ہے وہ 992ہیں ۔

(جاری ہے)

سال1999کی سکیمز آج تک اس پی ایس ڈی پی میں شامل چلی آرہی ہے دوسری طرف فاٹا اور بلوچستان ان منصوبوں کے حوالے سے مکمل طور پر محروم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں حقائق سینیٹ کے سامنے رکھوں دفاعی مقصد کیلئے1034ارب روپے مختص ہیں پشن کیلئے مختص رقم میں71فیصد مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کیلئے ہے دفاعی بجٹ کیلئے860 ارب روپے جس میں 11فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔

پنشن کی ادائیگی کیلئے 265ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں یونیورسل سروس فنڈ USFکو لیں چار نئے منصوبے ہیں جن میں وفاقی پی ایس ڈی پی کا حکم 1675ارب روپے محیط ہے وفاق کیلئے 800ارب جبکہ صوبوں کیلئے 875ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں اس میں 75فیصد توانائی کے شعبہ کیلئے دیگر ترجیحات میں شاہراہوں کی تعمیر آبی وسائل کی ترقی ، پاک چین راہداری کے منصوبے شامل ہیں ۔

توانائی شاہراہوں ، ریلویز ، آبی وسائل کی ترقی کے سارے منصوبے سوائے ایک کچھی کینال کے جس صوبے سے میرا اور آپ کا تعلق ہے سوائے کچھی کینال اور مغل کوٹ سیکشن کے تمام منصوبوں سے پشتون بلوچ صوبہ محروم ہے۔ یہ ہیں انصاف کے تقاضے اور یہ ہے اچھی حکمرانی کا بجٹ ۔ انہوں نے کہا کہ ہم گلہ کرتے ہیں توہم حقائق کی روشنی میں اپنا گلہ کرتے ہیں ہم بھی اس ملک کے باسی ہیں اس ملک کے بنانے میں ہمارا کردار سب سے زیادہ ہے لیکن افسوس ہے کہ اس ملک میں ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے جو کہ قابل گرفت ہے گوادر ، تربت کو آپ لے لیں ہوشاب سیکشن اس لیئے رکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی مجبوری ہے احسان قطعاً نہیں ہے حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر سی پی ای سی آگے نہیں بڑھ پاتا یہ احسان ہر گز نہیں ہے بلکہ حکومت کی مجبوری ہے ۔

جہاں تک بڑی رقوم جو مختص کی گئی ہے ان کی تفصیل کچھ ایسے ہے 175ارب توانائی کے منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں 260ارب مواصلات کے شعبے کیلئے مختص ہیں 32ارب آبی وسائل کی ترقی کیلئے اگر ہم ان شعبوں میں بلوچ پشتون صوبے میں ان میں لگنے والے فنڈز تلاش کرے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے یہاں بھی محرومی ہے مایوسی ہے ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے فاٹا کو نظر انداز کیا گیا ہے اور ہمارے گلے پر چھری چلائی گئی ہے فاٹا جیسی سرزمین نے سب سے بڑی قربانیاں فاٹا ہے کی 60ہزار لوگوں اس ملک میں شہید ہوئے ہیں ان میں سے تقریباً 50ہزار سے زائد لوگ پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جو دہشتگردی کی نذر ہوچکے ہیں۔

ان کیلئے صرف 21ارب روپے رکھے گئے ہیں کیا یہ انصاف کی حکمرانی ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم اچھی حکومت چلا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی حکومتیں چلانے سے تو نفرتیں جنم لیتی ہے ایسے حساب کتاب سے دوری پیدا ہوجاتی ہے سادہ سا مثال ہے جو کچھ آپ بورہے ہیں کل اسے کاٹیں گے اور جس نے بویا ہے اس نے کاٹا ہے تاریخ اس بات کی شاہد ہے ۔ اﷲ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اس کے ہاں قطعاً نا انصافی نہیں ہوتی ہم محکوم لوگ ہے ۔

سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ ہماری قومیں وحدتیں غلام ہے پشتون ، بلوچ ، سندھی کی وحدت غلام ہے بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ کفر میں تو گزارہ ہوجاتا ہے لیکن اگر آپ نے بے انصافی میں گزارا کیا تو آپ کیلئے سوالیہ نشان ہوگا ۔ ہم مظلوموں کی زندگی گزارہے ہیں ۔ ملک میں طبقات کی اونچ نیچ ہے جو بڑا ہوگا اس کیلئے کوئی قانون نہیں ہوگا ہم نے جتنے بھی قانون بنائے ہیں ان تمام کی Implementationصرف غریبوں پر کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کسان پیکج کیلئے 341ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ فاٹا اور بلوچستان کے کسانوں کیلئے2فیصد ہے باقی تمام حصہ لاہور ، پنجاب کیلئے ہیں ۔ سی پیک پشتون بلوچ عوام کے ساتھ دھوکہ ہوا آل پارٹیز کانفرنس میں وزیر اعظم صاحب نے خود اعلان کیا تھا کہ ہماری اولین ترجیح مغربی روٹ ہوگی۔ مگر افسوس کے وزیراعظم کے اعلان پر کوئی عملدر آمد نہیں ہورہا ہے ۔

چین اس لیئے سی پیک بنارہا ہے کہ اس پسماندہ اضلاع کی وجہ سے وہاں دہشتگردی کا خطرہ ہے اس خطرے کو ٹالنے کیلئے چین نے یہ پروگرام شروع کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہونیوالا یہ پروگرام بلوچستان اور پختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں گزر ہا تھا لیکن آج تبدیل کردیا گیا اور مشرقی روٹ کو اولیت دی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کو لے لیں ملک کی تاریخ کو دیکھیں جو بھی حکمران آئے انہوں نے گڑبڑ کی میری تجویز ہے کہ جس نے بھی گڑ ڑ کی ہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو اس کا حساب کتاب ضرور لینا چاہیے ۔

اس شہزاد صاحب ریٹائرڈ فوجی ہے انہوں نے 13 ارب روپے کی کرپشن کی ہے فوجی کرپشن میں سویلین سے نمبر لے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک گیس اور بجلی کا تعلق ہے تو یہ پشتون بلوچ صوبہ بلوچستان ،پختونخوا اور سندھ کی پیداوار ہیں لیکن ہم اپنے وطن میں بجلی اور گیس سے محروم ہے ہماری بجلی گیس سے لاہور کی رونقیں ووچند ہوگئی ہے آئین کی بالادستی چاہیے پارلیمنٹ بااختیار ہو خارجہ داخلہ پولیٹکس پارلیمنٹ بنائے ۔

سینیٹ کے اختیارات ہوں ہماری خارجہ پالیسی قابل گرفت ہے ہم نے تمام ہمسایہ ممالک سے دشمنی مول لی ہے ۔ ہم افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتے ہیں یہ ہماری خام خیالی ہے افغانستان کو انگریزی بھی زیر نہیں کر سکا ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کو زیر کریں گے اور پانچواں صوبہ بنائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دہشتگردی کا تعلق ہے تو ہم نے دہشتگردی کو دوام دیا ہے ہم نے ملک کو دہشتگردوں کے حوالے کیا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے ہمارا ملک دہشتگردوں کے حوالے ہوگیا ہے یہ ہماری اپنی غلطی ہے اس ملک کو 120ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری ہونی چاہیے جبکہ اس کیلئے کوئی رقم ہیں رکھی گئی ہے۔ اگر سینیٹ کو بااختیار بنایا جائے تو اس ملک کو چلانا بہت آسان ہوگا ۔

متعلقہ عنوان :