برطانیہ اور امریکہ کا عراق پر حملہ غیرقانونی تھا۔ صدام حسین کو ہٹانے اور ہمارے پینڈورا باکس کھولنے سے لاکھوں اموات ہوئیں:سابق برطانوی نائب وزیراعظم جان پریسکوٹ کے اپنے مضمون میں اہم انکشافات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 10 جولائی 2016 10:51

برطانیہ اور امریکہ کا عراق پر حملہ غیرقانونی تھا۔ صدام حسین کو ہٹانے ..

لندن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10جولائی۔2016ء) برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ نے کہا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کا عراق پر حملہ غیرقانونی تھا۔برطانوی جریدے میں اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہو گی۔لارڈ پریسکوٹ نے کہا کہ وہ اب انتہائی غم و غصے کی حالت میں اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان سے متفق ہیں کہ جنگ غیرقانونی تھی۔

انھوں نے لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن کی پارٹی کی جانب سے معافی طلب کرنے پر تعریف کی ہے۔لارڈ پریسکوٹ عراق پر حملے کے وقت ٹونی بلیئرکے ساتھ نائب وزیراعظم کی حیثیت سے کام کررہے تھے-لارڈ پریسکوٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ مارچ میں حملے سے قبل امریکی صدر جارج ولیم بش کے نام برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا پیغام کہ چاہے کچھ بھی ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں تباہ کن تھا۔

(جاری ہے)

انھوں نے لکھا کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ہم جنگ میں جانے کے فیصلے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ان برطانوی فوجیوں کے بارے میں جنھوں نے اپنی زندگی دی اور اپنے ملک کے لیے زخم اٹھائے۔ان پونے دو لاکھ لوگون کی موت کے بارے میں جو صدام حسین کو ہٹانے اور ہمارے پینڈورا باکس کھولنے کے نتیجے میں واقع ہوئیں۔لارڈ پریسکوٹ نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ جیریمی کوربن نے لیبر پارٹی کی جانب سے ان لوگوں سے معافی طلب کی جن کے رشتے دار یا تو مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے۔

انھوں نے بطور خاص برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ سے معافی طلب کی جنھوں نے اس جنگ میں جانیں گنوائیں۔سابق نائب وزیر اعظم نے کہا کہ چلکوٹ رپورٹ نے غلطی کی تفصیل سے وضاحت کی ہے لیکن انھوں نے اس سے بعض سبق سیکھنے کی نشاندہی کی۔انھوں نے لکھا کہ میری پہلی تشویش ٹونی بلیئر کے کابینہ چلانے کے انداز پر ہے۔ ہمیں اتنی کم دستاویزات دی گئیں کہ ہم اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔

عراق پر لشکر کشی کے خلاف اٹارنی جنرل لارڈ گولڈ سمتھ کی رائے کے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کی گئی۔سر جان چلکوٹ کی سربراہی میں برطانیہ کے عراق پر حملے کی رپورٹ گذشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عراق کے وسیع پیمنے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو جس یقین کے ساتھ سامنے لایا گیا تھا اس کا کوئی جواز نہیں پیش کیا گیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ برطانوی فوج کو نامناسب تیاری اور اسلحے کے سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ کے بعد کے منصوبے پوری طرح نامناسب تھے۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2003 کا حملہ آخری حربہ نہیں تھا جیسا کہ رکن پارلیمان اور عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور یہ کہ صدام حسین سے برطانیہ کو کوئی ناگزیر خطرہ لاحق نہیں تھا۔اس سے قبل ٹونی بلیئر نے غلطیوں کے لیے معافی طلب کی تھی تاہم جنگ چھیڑنے کے فیصلے پر نہیں۔