مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے کبھی بھی تحریک آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا ، وہاں پر وسیع مقامی مزاحمت یہ ثابت کرتی ہے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ،کشمیر میں بیرونی مداخلت کا بھارتی الزام سراسر غلط ہے ، کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا زیادتی ہے ، بھارتی میڈیا بھی اس ظلم کے سیاسی حل کے لئے آواز اٹھا رہا ہے ، وہاں پر چلنے والے 11قوانین بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو ان کے ظلم کو شہہ دے رہے ہیں ، انسانی حقوق کمیشن کوکشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے اور پیلٹ گن کا استعمال روکوانے کیلئے خط لکھا ہے ،دو ہفتے میں 11وزرائے خارجہ سے ملاقات کی گئی اور کشمیر کے مسئلے اور بھارتی جبر بارے آگاہ کیا ، وزیر اعظم اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 5 ممبران کو بھی خط لکھیں گے ،کشمیری عوام کی نسل در نسل قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی

مشیر خارجہ سرتاج عزیزکا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

پیر 1 اگست 2016 23:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم اگست ۔2016ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ بھارتی ریاستی دہشت گردی سے کبھی بھی تحریک آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا ۔ وہاں پر وسیع مقامی مزاحمت یہ ثابت کرتی ہے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور بھارتی الزام سراسر غلط ہے کہ کشمیر میں بیرونی مداخلت ہورہی ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا زیادتی ہے ۔

بھارتی میڈیا بھی اس ظلم کے سیاسی حل کے لئے آواز اٹھا رہا ہے ۔ وہاں پر چلنے والے 11قوانین بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو ان کے ظلم کو شہہ دے رہے ہیں ، انسانی حقوق کے کمیشن کو خط لکھا گیا کہ کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائے اور پیلٹ گن کا استعمال روکا جائے ۔

(جاری ہے)

دو ہفتے میں 11وزرائے خارجہ سے ملاقات کی گئی اور کشمیر کے مسئلے اور بھارتی جبر بارے آگاہ کیا ، وزیر اعظم پاکستان اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 5 ممبران کو بھی خط لکھیں گے ،کشمیری عوام کی نسل در نسل قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدلہ وہاں کی عوام ضرور لے گی، وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیریوں کے دکھ کو اپنا دکھ اور انکی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں ۔

22 سالہ برہان وانی پر پہلے تشدد کیا اور پھر اسے شہید کیا گیا اور وہ مقامی نوجوان تھا ۔ بھارت کے دراندازی کے الزامات کہاں گئے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی روک کر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مولانا فضل الرحمن اور دیگر ارکان کی تحاریک التواء پر بحث شروع کرائی گئی ۔ بحث میں مولانا فضل الرحمان سمیت ، پی ٹی آئی کی شیریں مزاری، جے یو آئی کے صاحبزادہ طارق اﷲ ، پی پی پی کی بیلم حسنین، ڈاکٹر عارف علوی ، عمران ظفر لغاری ، نعیمہ کشور خان ،قاری محمد یوسف سمیت دیگر ارکان نے حصہ لیا۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا ۔ تلاوت کے بعد سپیکر نے آگاہ کیا کہ بزنس ایڈوائزری میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بحث کا آغاز کرنے بارے طے ہوا ہے ۔ سپیکر کی ہدایت پر وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے وقفہ سوالات سمیت ایجنڈے کی دیگر کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی تاکہ مقبوضہ کشمیر پر بحث کرائی جا سکے ۔

تحریک کی منظوری پر مولانا فضل الرحمان و دیگر ارکان کی طرف سے پیش کی گئی تحاریک التواء پر بحث کا آغاز وا ۔ بحث کا آغاز مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سرزمین کشمیر مظلوم کشمیریوں کے خون سے سرخ ہو گئی ۔ مودی سرکار کا رویہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔ ماضی میں بھارت پاکستان پر دراندازی اور مسلح افراد بھجوانے کے الزامات عائد کرتا تھا لیکن موجودہ تحریک اندرونی اور غیر مسلح ہے ۔

خود بھارتی دانشور اپنی حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ کشمیریوں کی تحریک اندرونی ہے اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں بھارت اندر بھی انصاف پسند حلقے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کر رہے ہیں ۔ کشمیریوں کی جدوجہد میں ہم کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ کشمیر کے مسئلے پر پوری قوم ایک صفحے پر ہے۔ اس پر پاکستانی قوم میں کوئی اختلاف نہیں ۔

ہم ہر قدم پرکشمیریوں کے ساتھ ہیں اور کشمیریوں کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہے ہیں ۔تمام معاملات پر بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے پابند ہیں مگر کشمیر اس پابندی سے مستثنیٰ ہے ۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جن میں سے 23 متفقہ ہیں۔ بھارت ان قراردادوں پر عمل درآمد سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے ۔ پاکستان کو ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھانا چاہیے ۔

کشمیری نوجوانوں نے مسئلے کو اپنے خون سے آج تک زندہ رکھا ہے ۔ با مقصد اور با معنی مذاکرات کے ذریعے مسئلے حل ہونا چاہیے ۔ ہمارا موقف غیر مبہم ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے پاسی واضح کی جانی چاہیے اور عملی اقدامات تجویز کیے جانے چاہیں ۔ تمام ادارے کشمیر کمیٹی میں متفقہ پالیسی کے لئے تجاویز دیں کشمیری چار نسلوں سے قربانیاں دے رہے ہیں ۔

کشمیری عوام کی آئندہ نسل کو جنگ و جدل سے نکلانے کا سوچنا چاہیے ۔ پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کرنا ہے ۔ آئندہ سارک اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان کو مسئلہ کشمیر اٹھانا چاہیے کشمیر کے مسئلے پر ایک قومی سیمینار بلایا جانا چاہیے ۔ حریت کانفرنس کے قائد سید علی گیلانی کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں ۔ آزاد کشمیر میں الیکشن ہو چکے جن میں ن لیگ کو دو تہائی اکثریت ملی ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ ن لیگ کی حکومت مظفر آباد کو تحریک آزادی کا بیس بنا کر اس خطے کو مقبوضہ خطے کی آزادی کے لئے متحرک کرے ۔

تجاویز اور اقدامات بارے رپورٹ بنانے کیلئے کشمیر کمیٹی کی ذیلی کمیٹی بنا دی ہے ۔ کشمیر کمیٹی کے ٹی او آرز نہ ہونے کے برابر ہیں اس کے اختیارات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ٹی او آرز میں تبدیلی کیلئے قواعد میں ترامیم زیر التواء ہے۔ اگر پارلیمنٹ با اختیار ہے تو اس کی کشمیر کمیٹی کو بھی با اختیار ہونا چاہیے۔ تمام پالیسیاں اس کمیٹی میں چاہیے۔

گالیاں ہمیں ملتی ہیں اور اختیارات کسی اور کے پاس ہے۔ پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے کہاکہ حکومت نے کشمیر پر کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ کشمیر کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں لیکن تجاویز دینے کا اختیار تو ہے۔ بیورو کریسی اور فارن آفس کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں کر سکتے۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں کر سکتے۔ مسئلہ کشمیر کا اختیار فارن آفس سے واپس لے لینا چاہیے۔

دنیا کو آگاہ کیا جانا چاہیے کہ بھارت کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے کے لئے ممنوعہ اسلحہ استعمال کر رہا ہے اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں چاہیے۔ ہماری کمزوری کی وجہ سے کشمیر پر آج تک رائے شماری نہیں ہو سکی حالانکہ اسٹیٹ تیمور میں بھی کشمیر جیسی صورتحال تھی وہاں تو رائے شماری ہو گئی۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کہ نہیں لیکن بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے۔

پی پی پی کی بیلم حسنین نے کہاکہ ظلم و ستم سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبایا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کی صورتحال پر کیوں خاموش ہیں۔ حکومت پاکستان بھارتی مظالم پر احتجاج کرے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ پاکستان کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ آج تک زیر التواء ہے۔ موجودہ تحریک ایک مجاہد برہان وانی کی شہادت سے شروع ہوئی اس کے نماز جنازہ میں 5لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگایا۔

ذوالفقار علی بھٹو جیسا کردار چاہیے جس نے قرار داد پھاڑ کر سورن سنگھ کے منہ پر ماری تھی۔ کشمیر پر سودے بازی ہو چکی ہے کشمیر کو بھول کر آلو ‘ پیاز کی تجارت ہو رہی ہے۔ وزارت خارجہ نے کشمیر پر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ بیرون ملک پاکستانی سفراء کشمیر پر جارحانہ مہم چلائیں۔ خدارا کشمیر کے مسئلے کو دفن نہ کیاجائے۔ پارلیمنٹ کشمیر پر متفقہ قرار داد منظور کر کے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھجوائے۔

شاہدہ اختر علی نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن ماہر امور کشمیریات ہیں ان کی کشمیر کمیٹی کو با اختیار بنایا جائے تاکہ وہ اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی فیصلہ کن کردار ادا سکیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف یو این او مقبوضہ کشمیر میں نافذ غیر انسانی قوانین پر خاموش کیوں ہے ۔ او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کو فعال کرنیکی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وزیراعظم کو تمام ممالک کے سربراہان کو کشمیر کے مسئلے پر فون کر کے بھارتی مظالم و جبر سے آگاہ کرتے، سعودی الائنس میں ہم شامل ہوئے مگر وہاں سے بھی کشمیر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی گئی ، کشمیر کے ظلم پر دنیا ناواقف ہے اور میڈیا پر وہاں کی کوئی خبر نہیں چلتی ، ہم اگر کشمیر کے عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہمیں چپ ہوجانا چاہیے ، ہندوستان تو چاہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان میں ہڑتالیں ہوں ، صاحبزادہ محمد یعقوب نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے اور مسلم دنیا سمیت عالمی دنیا بھی خاموش نظر آ رہی ہے ۔

نعیمہ کشور خان نے کہا کہ کشمیر میں نوجوانوں کی شہادت بڑا المیہ ہے ۔ کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان کی نہیں پارلیمانی کمیٹی ہے ۔ عمران ظفر لغاری نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، ہمیں ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے ۔ حکومت ہمت نہیں کرتی اگر ہمت کرے تو پورا پارلیمان حکومت کے پیچھے کھڑا ہے ، مگر یہ تمام باتیں بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے ۔

اس حکومت میں ہندوستان کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہے ۔ کشمیر کمیٹی جنوبی افریقہ جاتی ہے مگر کشمیر نہیں گئی ۔ بھارتی وزیراعظم مسلمانوں کا دشمن ہے ۔ پاکستان دشمن ہے ۔ عبدالوسیم نے کہا کہ جب کشمیر میں 50سے60شہادتیں ہوتی ہیں تو ہمیں کشمیر یا دآتا ہے اور بھارت کا ریاستی جبر جاری ہے ۔ آسیہ ناصر نے کہا کہ بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نطر نہیں آ رہی ہین ، پاکستان آزادی کی جنگ میں کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔

عالمی برادری اس معاملے پر جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ قاری محمد یوسف نے کہا کہ آج مسلمانوں کا خون اوزاں ہو گیا ہے اور عالمی برادری کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر چپ ہے ۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ پورے ایوان نے بے گناہوں کی شہادت اور 6ہزار زخمیوں پر بھارتی شرمناک ظلم کی مذمت کی ہے ۔تین ہفتوں سے وہاں پر مکمل کرفیو ہے اور اس ضمن میں ڈاکٹروں نے کہا کہ وہاں پ پیلٹ گن کے استعمال پر تمام میڈیا ، سوشل میڈیا کو بند کر دیا ہے اور وہاں زخمیوں اور معالجوں کو بھی ہراساں کیا گیا ہے ۔

بھارتی ظلم سے کبھی بھی تحریک آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا ۔ وہاں پر وسیع مقامی مزاحمت یہ ثابت کرتی ہے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور بھارتی الزام سراسر غلط ہے کہ کشمیر میں بیرونی عناصر ملوث ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا زیادتی ہے ۔ بھارتی میڈیا بھی اس ظلم کے سیاسی حل کے لئے آواز اٹھا رہا ہے ۔ وہاں پر چلنے والے 11قوانین بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو ان کے ظلم کو شہہ دے رہے ہیں ۔

کشمیر کے مظالم پر بھارتی سفیر سمیت پوری یونین اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اوآئی سی کے وزرائے خارجہ اور سفراء کو خطوط لکھے گئے کہ وہ بھی عالمی دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی بھارتی ظلم کی مذمت کی گئی اور انسانی حقوق کے کمیشن کو خط لکھا گیا کہ کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائے اور پیلٹ گن کا استعمال روکا جائے ۔

دو ہفتے میں 11وزرائیخارجہ سے ملاقات کی گئی اور کشمیر کے مسئلے سے اور بھارتی ظلم سے آگاہ کیا ، وزیر اعظم اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 5 ممبران کو بھی خط لکھیں گے ۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے کو پرزور انداز میں اٹھایا اور پارلیمان سے وفود بھی کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھیں گے ۔

کشمیری عوام کی نسل در نسل قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدلہ وہاں کی عوام ضرور لے گی ۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیریوں کے دکھ کو اپنا دکھ اور انکی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں ۔22 سالہ برہان وانی پر پہلے تشدد کیا اور پھر اسے شہید کیا گیا اور وہ مقامی نوجوان تھا ۔

بھارت کے دراندازی کے الزامات کہاں گئے۔ وزیر اعظم نے 3 سالوں میں 3 دفعہ جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کی۔بھارت نے ایٹمی دھماکہ کے بعد آزاد کشمیر کو خالی کروانے کی دھمکی دی تھی مگر وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کا منہ بند کر دیا ۔ اقوام متحدہ کو دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوگا تو کشمیری عوام کو اُن کا حق ملے گا۔