جماعت اسلامی کے ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے انسداد کرپشن وبدعنوانی سے متعلق موجودوفاقی قوانین میں ترامیم کے بلز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایوان کی اجازت سے متعلقہ کمیٹیوں کے حوالے

منگل 2 اگست 2016 23:25

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔2 اگست ۔2016ء ) جماعتِ اسلامی پاکستان کی طرف سے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے انسداد کرپشن وبدعنوانی سے متعلق موجودوفاقی قوانین میں ترامیم کے بلز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایوان کی اجازت سے متعلقہ کمیٹیوں کے حوالے کر دیے گئے ۔ جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق جن قوانین میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں اُن میں (۱) ’’قومی احتساب آرڈی ننس مجریہ 1999ء (1999ء کا ایکٹ XVIII)‘‘ (۲) ’’ تعزیراتِ پاکستان ایکٹ 1860ء ‘‘ (۳) ’’انسداد کرپشن ایکٹ 1947ء‘‘ شامل ہیں۔

بلزجماعت اسلامی پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اﷲ، صاحبزادہ محمد یعقوب، شیراکبر خان اور عائشہ سید نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں مؤرخہ 13جون 2016کوجمع کرائے تھے۔

(جاری ہے)

’’ احتساب آرڈی ننس مجریہ 1999ء (1999ء کا ایکٹ XVIII)‘‘ میں ترمیمی بل کے محرک صاحبزادہ طارق اﷲ،(۲) ’’ تعزیراتِ پاکستان ایکٹ 1860ء ‘‘ میں ترمیمی بل کے محرک صاحبزادہ محمد یعقوب اور’’انسداد کرپشن ایکٹ 1947کے محرک شیر اکبر خان ہیں جبکہ محترمہ عائشہ سید نے بھی تینوں بلز پر دستخط کیے ہیں۔

قومی احتساب آرڈی ننس میں ترامیم کی تفصیل درج ذیل ہے۔بل میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ نیب آرڈینس کا اطلاق تمام افراد اور اداروں پر ہوگا اور ان تمام پاکستانی شہریوں پر ہو گا جو ملک میں موجود ہوں یا فی الوقت پاکستان میں موجود نہ ہوں اور ان افراد پر جو پاکستان کی ملازمت میں ہوں یا رہے ہوں وہ جہاں بھی ہوں اور ان کا جو بھی مرتبہ ہواور وفاق اور صوبہ کے زیر کنٹرول علاقوں پر بھی اس کا اطلاق ہوگا ۔

تجویز کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج کی تعیناتی متعلقہ صوبے کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انتظامی کمیٹی سے مشاورت سے کریں گے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت میں وہ جج تعنیات ہو سکے گا جو کسی ضلعی یا سیشن عدالت کا حاضر سروس جج ہو اور جو ہائی کورٹ میں تعیناتی کا اہل ہو، جو عدالتی افسران میں انتہائی قابل، ایماندار اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔

کرپشن کے جرم کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے اور تجویز کیا گیا ہے کہجرم کی تعریف میں بدعنوانی اور بدعنوانی پر مبنی کاموں سے متعلق جرم، جن میں انتخابی بدعنوانی اور الیکشن سے متعلق بدانتظامیاں اور دیگر ایسے تمام جرائم شامل ہیں جن کا ذکر اس آرڈی ننس میں آیا ہے۔نیب آرڈینس کے سیکشن پانچ کے پیراگراف (ر)کی شرطیہ شقات 1، 2، 3 کو حذف کرنے کی ترمیم تجویز کی گئی ہے کیونکہ اس سے قبل کچھ افرادیا عوامی نمائندوں کو قرضوں کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں ڈیفالٹ سے استثناء دیا گیا تھا یہ قرین انصاف ہے کہ چاہے حکومتی ادارہ ہو یا پرائیویٹ یا کو ئی بھی بااثر شخصیت جس کے ذمہ جو بھی قرض کی ادائیگی ہے اسکو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور واجب الاداء رقم کی ادائیگی کرے۔

اسکو مزید مہلت دینا ملک کو مزید اندرونی اور بیرونی قرضوں میں جکڑے رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔نیب آرڈینس کے سیکشن پانچ کے پیراگراف(r) کے بعد ایک نئے پیراگراف (s) کا اضافہ کے ذریعے ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ اچھی حکمرانی وہ ہے جس میں اداراتی طرز عمل میں واضح مثبت تبدیلی اور اصلاحات ہوں، اور مختصراً یہ انسدادِبدعنوانی پر مبنی ایک حکمتِ عملی ہے جہاں حکام اور ادارے بدعنوانی سے آزاد، عوام کو جوابدہ، مؤثر اقدامات کی صلاحیت رکھنے والے اور بدعنوانی سے پاک ہوں، اور انفرادی اور ریاستی سطح پر کسی بھی معنی میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تمام ادارے خود مختار ہوں۔

اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی تعیناتی صدرِ پاکستان چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو دیگر سینئر ججز، تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کیساتھ مشاورت کے بعد اکثریتی رائے کی بنیاد پر کریں گے۔ نیز چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین نیب کا تعیناتی کے لیے مطلوبہ شرائط پر پورا اُترنا ضروری ہوگا، اور یہ کہ دوہری شہریت کے حامل افراد چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین نیب تعینات نہیں ہوسکیں گے۔

بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے اختیارات میں مزید اضافہ تجویز کیا گیا ہے اور اس کی ذمہ داریوں اور اختیارات کو زیادہ واضح کیا گیا ہے، اور تجویز کیا گیا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ نیب اور اس کے چیئرمین کی بنیادی ذمہ داری ہوگی۔بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ تمام بنکوں اور مالیاتی اداروں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے کسی پاکستانی شہری یا دیگر ممالک کے شہری،خواہ وہ فی الوقت پاکستان میں رہ رہے ہوں یا بیرون ملک سے کاروبار کررہے ہوں، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور اُس کی کوئی بھی حیثیت ہو، کوئی ایسی مالیاتی سہولت فراہم نہ کریں جو مستقبل میں کسی قسم کے نقصان کا باعث ہو۔

مزید کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی حکومت کو ایسے تمام افراد سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہوگا اور بغیر کسی تصدیق کے ایسی کوئی مالیاتی سہولت فراہم کرنے یا قرض معاف کرانے میں ملوث یا معاون ہوگا، اور سیکشن (a)کے مطابق عملدرآمد نہیں کرے گا تو وہ ایسی سخت سزا کا مستحق ہوگا جس کی مدت 25 سال تک ہوگی اور اُسے جرمانہ بھی کیا جائے گا۔ نیب آرڈینس کے سیکشن 10 کے پیراگراف (a) میں سخت اقدامات تجویزکیے گئے ہیں۔

کوئی سرکاری عہدیدار یا کوئی دیگر شخص جس نے کرپشن اور کرپشن پر مبنی کسی جرم کا ارتکاب کیا ہواور کرپشن کی تعریف میں ہر قسم کی اوراس آرڈینیس کے سیکشن نو میں اور دیگر سیکشنز میں دیے گئے جرائم کے ہر مطلب میں کرپشن شمار ہوگی۔ یا وہ ایسی بدعنوانی میں ملوث ہو جس یا دیگر تمام نوعیت کے جرائم میں ملوث ہو تو وہ 25 سال تک سزا کا موجب ہوگااور جرمانہ بھی ہوگا اور سزا کسی صورت میں بھی دس سال سے کم نہ ہوگی اور اسے اس کے ایسے جائیداد سے محروم کیا جائے گا جو اس کے معلوم ذرائع آمدن سے متماثل نہ ہو، یاجسے بدعنوانی سے حاصل کردہ پیسے سے خریدا گیا ہو، خواہ وہ جائیداد اس کے اپنے نام ہو یا کسی ماتحت کے نام، یا وہ بے نامی جائیداد ہو، وہ سب بحق حکومتِ پاکستان یا متعلقہ بنک یا مالیاتی ادارے، جو بھی صورت ہو، کے نام ضبط ہوں گی، اور اس کا پاسپورٹ بھی ضبط کیا جائے گا، اس کی جائیداد منجمند کرکے اسے اس کے عہدے / ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا اور اسے آئندہ کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا اور وہ کسی بھی ادارے بشمول بلدیاتی ، صوبائی، قومی اسمبلی، سینیٹ کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔

بل میں بیرونی اثاثوں کے ظاہر کرنے سے متعلق ایک نئی سیکشن 22-Aتجویز کی گئی ہے، جس میں دس نکات تجویز کیے گئے ہیں۔بل میں ترمیم کے ذریعے موجودہ سیکشن 25 کی ذیلی شقات (a)، (b) اور (c)جو کہ پلی بارگین سے متعلق تھیں ان کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔بل کے سیکشن 25-A میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جسکے ذریعے ثالثی کمیٹی کے حوالے سے گورنر سٹیٹ بنک کے بجائے چیئرمین نیب کو زیادہ اختیار ہونگے نیب آرڈینس کے سیکشن 26 میں ترمیم کے ذریعے چیئرمین نیب کو کسی کو وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں ریلیف دینے یا دیگر کسی صورت میں معافی دینے کے اختیارات ختم کردیے گئے ہیں۔

نیب آرڈینس کی سیکشن 27 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب یا ان کی طرف سے نامزد کردہ نیب کا کوئی بااختیار افسر، کسی بھی مقصد، بشمول بدعنوانی اور بدعنوانی کی کوششوں کے خاتمہ کے لیے اسے اختیار ہوگا کہ وہ نیب میں زیر التواء مقدمات میں معاونت کے لیے کسی بھی قسم کی دستاویز، معلومات یا تعاون حاصل کرے، یا اگر وہ چاہے تو کسی بھی وفاقی، صوبائی، ضلعی حکومت کے ادارے، بنک، مالیاتی ادارے، شخص یا کسی تنظیم اور ادارے یا سرکاری شعبہ یا نجی کے تحت کسی ادارے کے کسی بھی جائیداد کو، اگر وہ ضروری سمجھے، تو ضبط کرسکتے ہیں۔

بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نیب آرڈی ننس کی سیکشن 31 سی اور 31 ڈی کو ختم کردیا جائے کیونکہ ان کے ذریعے عدالتوں کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی تھی اور عدالتوں کے دائرہ اختیارِ سماعت کو گورنر سٹیٹ بنک کی مرضی سے مشروط کیا گیا تھا۔ سیکشن 33-C میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں کہ کرپشن اور کرپشن پر مبنی اقدامات کو کم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ، ہائی کورٹس کے فیصلوں ، نیب کے انتظامی معاملات اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کرپشن کے خلاف پاس کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے نگرانی نیب کی بنیادی ذمہ داری ہوگی۔

نیب آرڈی ننس کے شیڈول میں سزائیں بڑھائی گئی ہیں۔’’تعزیراتِ پاکستان 1860ء‘‘ ایکٹ میں 23دفعات میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔جن دفعات میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان میں 161,162,163,164,165,166,167,168,171,171i,171,217,218,403,404,417,418,419,420,445,446شامل ہیں اور اسی طرح ضابطہ فوجداری کے جدول دو میں اندرجات 161,162,163,164,165,166,167 اوراندرجات217,218,403,404میں گرفتاری،ضمانت،سزا کے حوالہ سے ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

مندرجہ بالا دفعات سرکاری ملازم کے رشوت لینے،عوام کو گمراہ کرکے ان سے رشوت وصول کرنا،سرکاری ملازم کا اپنے عہدہ کا استعمال کرتے ہوئے کسی دیگر شخص سے رشوت وصول کرنا،سرکاری ملازم کا کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے قانون کی نافرمانی کرنااور غلط دستاویز تیار کرنا،غیر قانونی طور پر اپنے آپ کو کسی کاروبار میں شامل کرنا،انتخابات کے موقع پر غیر قانونی طور پر اثر انداز ہونا،غیر قانونی ادائیگیاں،منقولہ جائیداد کا بددیانتی پر مبنی بے جا تصرف یا اسے اپنے استعمال میں لانا،کسی شخص کو جائیداد یا سزا کی ضبطی سے بچانے کی نیت سے قانون کے حکم کی خلاف ورزی ،منقولہ جائیداد کا بددیانتی پر مبنی بے جا تصرف یہ جانتے ہوئے کہ یہ فوتیدگی کے وقت متوفی شخص کے قبضہ میں تھی ،سے متعلق ہیں۔

مندرجہ بالا جرائم میں سزاؤں کو بڑھایاگیا ہے کیونکہ جب تک ملک سے بدیانتی،اقربا پروری،عہدوں کے غلط استعمال،غیر قانونی اقدامات اور سرکاری ملازم کی اپنے حلف کی عدم پاسداری جیسے افعال کو کنٹرول نہیں کریں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ ایک سال کی بجائے پانچ سال اور سات سال کرنے کی تجویز دی گئی ہیں اور تین سال کو سات سال کیاگیا ہے اور سات سال کی سزا کو چودہ سال تجویز کیا گیاہے ۔

اسی طرح ایک جر م کی سزا پانچ سو روپے تھی اسکو کو بڑھایاگیا ہے۔اس کے علاوہ ’’انسداد کرپشن ایکٹ 1947‘‘میں چار ترامیم تجویز کی گئی ہیں، پہلی ترمیم سیکشن د و میں تجویز کی گئی ہے جس کے ذریعے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 21میں دی گئی سرکاری ملازم کی تعریف میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اس میں ان اداروں کے ملازمین کو بھی شامل کیا گیا ہے جہاں حکومتی سرمایہ،حصص یا کسی بھی طرح اختیار شامل ہو ۔

دوسری ترمیم سیکشن پانچ میں تجویز کی گئی ہے جو کہ فوجداری بے ضابطگی سے متعلق ہے اس میں سزا سات سال سے دس سال تجویز کی گئی ہے ۔تیسری ترمیم سیکشن پانچ کی ذیلی سیکشن بی میں کی گئی ہے جو کہ اثاثہ جات کی ڈیکلریشن سے متعلق ہے ۔یہ سیکشن صرف صوبائی حکومت تک محدود تھی لیکن ہم نے وفاقی حکومت کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور سزا کو تین سال سے پچیس سال تک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن یہ سزا دس سال سے کم نہ ہو گی ۔چوتھی ترمیم سیکشن پانچ سی میں تجویز کی گئی ہے جو کہ معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے اس کی سزا بھی سات سال سے پچیس سال تک کی گئی ہے اور دس سال سے کم سزا نہیں ہو گی اور قومی خزانہ کو پہنچائے گئے نقصان کا پچاس گنا جرمانہ بھی کیا جائے گا