دہشت گردی کیخلاف قوم متحد ہے ، کوئٹہ واقعہ جیسے بزدلانہ واقعات سے قوم کے اعتماد کو متزلزل نہیں کیا جاسکتا،پوری قوم ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے،ارکان قومی اسمبلی

مذہب کے نام پر انتہا پسندی کے سدباب کیلئے مذہبی رہنماؤں کو کردار ادا کرنا ہوگا،عبدالقادر بلوچ دہشتگردی کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے کیساتھ بھارت دگر پڑوسی ممالک کیساتھ تعلقات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے،صاحبزادہ طارق اﷲ، مولانا محمد خان شیرانی، عبدالوسیم کا سانحہ کوئٹہ پر قومی اسمبلی میں اظہار خیال

پیر 8 اگست 2016 20:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 اگست ۔2016ء) ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف پوری قوم متحد ہے ، کوئٹہ واقعہ جیسے بزدلانہ واقعات سے قوم کے اعتماد کو متزلزل نہیں کیا جاسکتا،پوری قوم ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے ۔پیر کو قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر ہونیوالی بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ ہر انسان کی جان بے انتہا قیمتی ہے۔

آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد ہم نے جو فیصلے کئے تھے ان کو ہمیں مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس وقت اے پی سی میں جو لائحہ عمل مرتب ہوا تھا حکومت کو بتانا چاہیے کہ ان فیصلوں پر کس حد تک عملدرآمد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری اپوزیشن دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہے۔

(جاری ہے)

اس لعنت کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ کوئی دہشت گردی کی جرات نہ کرسکے۔

وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا چاہیے۔ جب تک ملک کا ہر شہری دہشت گردوں کے خلاف کھڑا نہیں ہوگا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ شرارت کہاں سے ہو رہی ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرکے انتہا پسندی ہو رہی ہے، اس کے سدباب کے لئے مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر مذہبی لیڈروں اور جماعتوں کو آگے آنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی اتحاد و یگانگت پیدا کرنی چاہئے۔ تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دیں ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے۔تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کوئٹہ میں جس پیمانے پر دہشت گردی ہوئی ہے پوری قوم کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات پر صرف تعزیت اور مذمتی بیانات کافی نہیں ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ خودکش حملہ آور ایسی کارروائیوں کے لئے پہنچ ہی نہ سکیں۔ نیشنل ایکشن پلان بن گیا ہے مگر کریمنل جسٹس سسٹم پر کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ جب تک ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہ اٹھائے گئے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ریاست کو چاہیے کہ دہشت گردوں کی معصوم شہریوں تک رسائی کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔

اس کیلئے انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست عوام کے لئے قابل بھروسہ پالیسی تشکیل دے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا ہے سانحہ کوئٹہ انتہائی افسوسناک ہے۔ گزشتہ 15 سالوں سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ کی گلیاں ایک مرتبہ پھر لہولہان ہوگئی ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان معاملات پر اے پی سی بھی طلب کی‘ قانون سازی بھی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام معاملات پر مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ ایسے واقعات کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے اور ان واقعات کو ہمیں بھارت اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سارک کانفرنس کے موقع پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ بھارتی وزیر داخلہ کو انہوں نے بھگا دیا ہے۔

ان واقعات کو سلامتی کونسل کی سطح تک اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ کوئٹہ کے سانحہ میں بلوچستان کے وکلاء کا صفایا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سانحہ پر ہمیں صرف افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے اپنے گھر کے اندر کے دشمنوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس خطہ پر انگریز کا تسلط تھا آج بھی انگریز ہی مسلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2015ء میں پینٹاگان کی جو رپورٹ افشا ہوئی اس میں واضح ہے کہ امریکہ اپنے تحفظ کے لئے دنیا پر جنگ مسلط کرے گا۔ نائن الیون کے بعد فوری طور پر کہا گیا کہ یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے۔ بعد میں اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ اس کا مقصد اسلام سے بیزار کرنا ہے۔ شہداء کے کے لئے فاتحہ خوانی کی جائے۔ حقائق کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔

ایم کیو ایم کے عبدالوسیم نے سانحہ کوئٹہ پر افسوس اور صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے قانون بھی منظور کئے‘ مشاورت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ فوج دہشتگردی کے خلاف قربانیاں دے رہی ہے۔ ہم اس معاملے پر ایک ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں بتایا جائے کہ اس میں رکاوٹ کیا ہے۔