قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور

منگل 9 اگست 2016 16:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔09 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے کوئٹہ میں پیر کوپیش آنے والے دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی،قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان غیر ریاستی عناصر کے مذموم مقاصد کو شکست دینے اور دہشتگردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے،اس قسم کے واقعات قوم کے عزم کو متزل نہیں کرسکتے بلکہ وطن عزیز سے دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے عزم صمیم کو جلا بخشتے رہیں گے۔

منگل کو ایوان میں کوئٹہ سانحے پر بحث مکمل ہونے کے بعد مذمتی قرارداد وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے منظوری کیلئے ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ قبل ازیں ارکان اسمبلی منزہ حسن،جمشید دستی،میجر(ر)طاہر اقبال،عالیہ کامران،نذیر احمد ،مولانا جمال الدین،مولانا امیر زمان،آسیہ ناصر ودیگر نے بحث میں حصہ لیا۔

(جاری ہے)

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان کوئٹہ میں پیش آنے ولے ظالمانہ اور انسانیت کش واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہے،اس بزدلانہ حملے کے نتیجے میں بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع اور سو سے زیادہ لوگوں کے زخمی ہونے کے واقعہ پر اور بلال انور کاسی،صدر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے قتل پر پوری قوم گہرے غم اور صدمہ میں ہے،یہ ایوان اس وحشیانہ حملہ میں ہلاک شدگان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور تعزیت کرتا ہے اور زخمی ہوجانے والوں کی جلد اور مکمل صحتیابی کیلئے دعا گو ہے۔

یہ ایوان دکھ کی اس گھڑی میں بلوچستان کی عوام،بالخصوص وکلاء برادری کے اراکین،قانون نافذ کرنے والے عملہ،میڈیا کے اراکین اور شہریوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت کرتا کا اظہار کرتا ہے،جنہیں اس قدر بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے،یہ ایوان غیر ریاستی عناصر کے مذموم مقاصد کو شکست دینے اور دہشتگردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے،اس قسم کے واقعات ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتے بلکہ وطن عزیز سے دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے عزم صمیم کو جلا بخشتے ہیں۔

دریں اثنا بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کی منزہ حسن نے کہا کہ علاج گاہوں کو دوران جنگ بھی حملوں سے مستشنیٰ رکھا جاتا ہے مگر دہشتگردوں نے گذشتہ روز ایک ہسپتال کو بھی اپنی بزدلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا اتنے اہم ایشو پر وزیرداخلہ کا ایوان میں موجود ہونا ضروری تھا لیکن وزیراعظم اور ان کے وزراء پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔غوث بخش مہر نے کہا کہ رواج بن گیا ہے کہ کوئٹہ جیسے سانحے رونما ہونے کے بعد ہم چند شورشرابہ کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں،بھارتی مداخلت اور جاسوس کی گرفتاری کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جمشید دستی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پر پوری قوم کدھر ہے،ہر دفعہ اس طرح کے واقعہ پر اسمبلی ایک قرارداد منطور کرلیتی ہے مگر کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہوا،نہ ہی کسی واقعہ بارے کوئی تحقیقاتی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی۔ اس طرح کے واقعات میں بھارت ملوث ہے مگر ہمارے حکمران بھارت کو پھول پیش کررہے ہیں اور انہیں اپنی شادیوں میں دعوت دیکر بلاتے ہیں،تمام عالمی دہشتگرد امریکہ میں بیٹھے ہیں،مسلمان متحد ہوکر اپنی اقوام متحدہ بنائیں،سانحہ کوئٹہ کا ذمہ دار وزیراعلیٰ ہے اسے مستعفی ہونا چاہیے،اس واقع پر اسے جیل میں ڈالا جائے۔

میجر(ر)طاہر اقبال نے کہا کہ بلوچستان میں معاشرے کی کریم کو جاں بحق کیا گیا،شہید وکلاء میں سے بعض نے کل جج بن کر اس ملک کی خدمت کرنی تھی،دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی ،مسلمانوں کو یکجا ہوکر سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا،سکیورٹی اداروں نے دہشتگردی کے واقعات پر بڑی حد تک قابوپالیا ہے۔ اگر تین سال پرانی صورت حال ہوتی تو ملک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی،علماء کرام آگے بڑھ کر دہشتگردی سے نمٹنے کی کوششوں کو کامیاب بنائیں،سی پیک منصوبے کو کامیاب بنانے سے دہشتگردی ناکام ہوگی،عاسیہ کامران نے کہا کہ کوئٹہ کو ایک بار پھر خون سے نہلا دیا گیا ہے۔

وکلا برادری کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنایا جارہا ہے،حکومت وکلا کو کیوں سکیورٹی فراہم نہیں کر رہی،سوسائٹی کریم کو ختم کرکے صوبے کو اندھیرے میں دھکیلا جارہاہے۔نذیر احمد بھگیو نے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ سکیورٹی حصار کے باوجود خودکش بمبار ہسپتال کے اندر پہنچنے میں کسطرح کامیاب ہوا،سکیورٹی کی صورتحال پر پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔

مولانا جمال الدین نے کہا کہ کل کا سانحہ دل خراش سانحہ ہے،علماء کرام دہشتگردی کے ذمہ دار نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہیں۔نسیم حفیظ نے کہا کہ کوئٹہ سانحہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے،ہمارے ملک میں سکیورٹی کے مسائل ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہیں جس وقت تک ہم خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔مولانا امیرزمان نے کہا کہ کوئٹہ میں کل کے سانحہ سے قبل جشن آزادی کے حوالے سے ملکی پرچم فروخت کرنے والے کو نشانہ بنایا گیا ۔

14اگست کی تقریبات روکنے کے پمفلٹ تقسیم کیے گئے مگر نااہل صوبائی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔70شہری شہید ہوگئے مگر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت کوئی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ،کیا یہ ایوان صرف فاتحہ خوانی کرانے کیلئے رہ گیا ہے۔آسیہ ناصر نے کہاکہ ہم کوئٹہ سانحہ کی پرزور مذمت کررہے ہیں،شاید ہم زندہ ہی صرف مذمت کرنے کیلئے رہ گئے ہیں،جب تک تمام فیصلے اس ایوان کے اندر نہیں ہونگے اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔میاں عبدالمنان نے کہا کہ سارک ممالک کے وزراء کی کانفرنس میں وزیرداخلہ نے جرات مندانہ کردار ادا کیا، ایوان کو بھی اس بارے بتائیں۔