کل پاکستان کے اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتنے کو32سال ہوجائیں گے

بدھ 10 اگست 2016 14:46

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 اگست ۔2016ء) آج ( جمعرت ) 11اگست کوپاکستان کے اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتنے کو32سال ہوجائیں گے ۔ آج سے32سال قبل11 اگست 1984 کوقومی ہاکی ٹیم نے لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔یہ پاکستانی ہاکی کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ اس روز یہ شاندار کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم کے کپتان منظور حسین تھے جنھیں ہاکی کی دنیا میں منظور جونیئر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

ہر اولمپکس کے بعد ایک بار پھر انتظار۔ اس سوال کا جواب اب بھی کسی کے پاس نہیں کہ پاکستان اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں دوبارہ تمغہ جیتنے میں کب کامیاب ہوسکے گا؟پاکستان نے اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں آخری بار سنہ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی کا تمغہ جیتا تھا جب کہ پاکستان کا آخری تمغہ 24سال قبل 1992 کے بارسلونا اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں ہی تھا جس میں اس نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

(جاری ہے)

بارسلونا کے بعد پاکستانی ہاکی ٹیم پانچ اولمپکس میں شریک تو رہی لیکن کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ ہونے کے باوجود کم از کم اس بات کی ہی خوشی رہتی تھی کہ وہ اولمپکس میں موجود تو ہے لیکن ریو اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کرنے کے نتیجے میں شرکت برائے شرکت کی برائے نام خوشی بھی چھن چکی ہے۔اس حوالے سے لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والی ٹیم کے کپتان منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ کسی نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستانی ہاکی اس بد ترین مقام پر آجائے گی۔

ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے جس سسٹم کی ضرورت ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اکیڈ میز تو بنا دی گئیں لیکن اگر وہ صحیح طریقے سے کام کرتیں تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ انہوں نے موجودہ فیڈریشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 2018 اور 2022 کو ذہن میں رکھ کر منصوبہ بندی کرے۔ اگر ہاکی فیڈریشن آج منصوبہ بندی کرے گی تو اس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں اچھا مل سکتا ہے۔

فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو مستقبل کے لیے تیار کرے۔منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ قومی اکیڈمیز میں ان کوچز کو مقرر کیا جائے جن کو ہاکی کی سمجھ بوجھ ہو اور وہ اس کھیل سے مخلص ہوں ۔پاکستانی ہاکی کی بد سے بدتر ہوتی ہوئی صورت حال میں یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اختر رسول اور قاسم ضیا اپنے دور کے بہترین کھلاڑی تھے لیکن جب وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے تو انتظامی معاملات میں بری طرح کیوں ناکام ہوگئے؟۔

منظور جونیئر اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں ’اختر رسول اور قاسم ضیا دونوں اپنے سیکریٹریز آصف باجوہ اور رانا مجاہد کے ہاتھوں یرغمال بن گئے تھے حالانکہ انھیں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی بھی غلط اقدام یا فیصلے کی تائید نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘منظور جونیئر کو موجودہ فیڈریشن خاص طور پر سیکریٹری شہباز احمد سے بڑی امیدیں ہیں کہ وہ قومی ہاکی کو اس کے پرانے مقام پر لانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔

منظور جونیئر کو1984میں ٹیم کی روانگی سے قبل ایوان صدر میں دیا گیا استقبالیہ بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں اس وقت کے صدر ضیا الحق نے جس طرح ہر کھلاڑی کی تعریف کی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھی۔’صدر ضیا الحق ہاکی پروفیشنل نہیں تھے لیکن انھوں نے کہا کہ اگر میں اس ٹیم کے ہر کھلاڑی کی صلاحیتیں بیان کروں تو وہ ایک ڈکشنری کی طرح ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے ہر کھلاڑی کی فرداً فرداً خوبیاں بیان کرنی شروع کردیں۔

آپ خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ٹیم کے بارے میں صدر مملکت کا تجزیہ اتنا زبردست تھا تو پھر ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار ایئر مارشل نور خان اور بریگیڈئر عاطف اس ٹیم کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے‘۔شہباز احمد کا شمار پاکستانی ہاکی کی تاریخ کے کامیاب کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 1994 میں ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی۔

1992 کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے انھی کی قیادت میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔شہباز احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہاکی کے زوال کی ایک وجہ نہیں ہے۔ ماضی کی فیڈریشنز پر بھی اس کی ذمہ داری عائد کی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے صحیح منصوبہ بندی نہیں کی۔ فیڈریشنز کو حکومت کی بھرپور سرپرستی بھی حاصل نہیں رہی تھی جب کہ اداروں میں ہاکی کے کھلاڑیوں کو ملازمتیں ملنا بھی بند ہوگئیں۔شہباز احمد کو بحیثیت کھلاڑی اولمپک گولڈ میڈل نہ جیتنے کا اب بھی افسوس ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جو کمی کھلاڑی کی حیثیت سے رہ گئی وہ کوشش کریں گے کہ اسے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں رہ کر دور کر سکیں اور پاکستانی ٹیم دوبارہ فاتح عالم کے طور پر پہچانی جائے۔

متعلقہ عنوان :