قومی اسمبلی ٗ اپوزیشن لیڈر نے حکومت کو پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنانے کی تجویز یدیدی

حکومت اکیلے دہشتگردی کے خلاف نہیں لڑ سکتی ٗ سب کو ملکر لڑنا ہوگا ٗآخر کب تک معصوم لوگوں کے خون پر آنسو بہاتے رہیں گے ٗ نیشنل ایکشن پلان پر حکومت منفی سیاست نہ کرے ٗسندھ میں دہشت گردی کے مجرم پکڑے جاتے ہیں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں ٗخورشید شاہ کا اظہار خیال اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود عالمی برادری ہمارا موقف تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے ٗشاہ محمود قریشی

بدھ 10 اگست 2016 20:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے حکومت کو پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اکیلے دہشتگردی کے خلاف نہیں لڑ سکتی ٗ سب کو ملکر لڑنا ہوگا ٗآخر کب تک معصوم لوگوں کے خون پر آنسو بہاتے رہیں گے ٗ نیشنل ایکشن پلان پر حکومت منفی سیاست نہ کرے ٗسندھ میں دہشت گردی کے مجرم پکڑے جاتے ہیں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ دس اگست ملک کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے ٗدس اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا۔

(جاری ہے)

11 اگست 1947ء کو قائد اعظم اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان میں سے کئی باتیں آج کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ پارلیمنٹ حکومت کے لئے رہنمائی فراہم کرتی ہے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ اب بلوچستان میں جو واقعہ ہوا ہے یہ اپنی نوعیت کا الگ واقعہ ہے جس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر وکلاء کی بڑی تعداد شہید کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں تمام ادارے دہشت گردی کے حوالے سے جوابدہ ہوں۔

کہاکہ حکومت کو ایک پیش کش کی ہے کہ ایک ایکشن کمیٹی بنائی جائے،حکومت دہشتگردوں سے اکیلے نہیں لڑسکتی،سب کو مل کرلڑنا ہوگا،انہوں نے کہا ہے کہ آخر کب تک معصوم لوگوں کے خون پر آنسو بہاتے رہیں گے، ہمیشہ جان چھڑائی گئی کبھی کسی پر الزام لگایا کبھی کسی تنظیم کا نام لیا اور کسی کو روکا نہیں گیا جس کی وجہ یہ بنی کہ پہلے سے زیادہ سخت حملے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا پتہ کیوں نہیں چلتا، حکومت پوچھے یا ذمہ داروں کو ایوان میں بلائیں ہم پوچھیں گے، دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنائی جائے اور تمام ادارے پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کو جواب دہ ہوں۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حکومت منفی سیاست نہ کرے، کیا نیشنل ایکشن پلان صرف ایک صوبے کیلئے ہے، سندھ میں دہشت گردی کے مجرم پکڑے جاتے ہیں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں، جن تنظیموں پر پابندیاں ہیں سختی سے عمل کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہروقت تعاون کیا ٗاپوزیشن نے ملٹری کورٹس کے قیام میں بھی تعاون کیا ٗحکومت نے نیشنل ایکشن پلان کا کہا ہم نے کہا ٹھیک، نیکٹا بنانے کا کہا گیا ہم نے کہا بنائیں لیکن اختیارات دینے کی بات کی تو اس پر حکومت لڑتی رہی، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ وہ دہشت گردوں سے تنہا نہیں لڑسکتی ٗسب کو مل کر لڑنا ہوگا ٗ ہم نے مشکل حالات میں ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا ہے ۔

سید خورشید شاہ نے کہاکہ 10اگست 1947ء کو قومی اسمبلی وجود میں آئی تھی ٗ قائداعظم کی پہلی تقریرکے دو تین نکات آج کے حالات میں صادق آتے ہیں ٗقائد نے کہا تھا کہ امن و امان کی ذمیداری ریاست کی ہے، انہوں نے کرپشن کے خاتمے پر زور دیا تھا۔ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمودقریشی نے کہاکہ کوئٹہ میں بہت بڑا سانحہ ہوا، یہ قومی سانحہ ہے ٗیہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ٗہرپاکستانی نے سانحہ کوئٹہ کی مذمت اور اظہارہمدردی کی۔

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اے پی ایس کے بعداتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان شروع ہواتھا،ایوان میں بحث ہوئی قراردادبھی منظورہوئی،کیاہماری تقریریں، قراردادیں کافی ہیں ٗ اگرنہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قیمت اداکی ہے، 60ہزار افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود عالمی برادری ہمارا موقف تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے،دہشت گردی قومی چیلنج ہے،جس سے نمٹنا ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب پشاور کا واقعہ ہوا تھا تو قومی اسمبلی میں موجود تمام پارٹیوں نے ایکشن پلان کی حمایت کی تھی۔انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے کوئی عملی اقدام ہونا چاہیے صرف قرار دادوں سے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔