قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی کے درست انداز میں کام نہ کرنے کی وجہ افسران کی نااہلی نہیں، بلکہ حکومت کی عدم توجہ ہے۔قوانین کے مطابق سال میں چار مرتبہ بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سےاب تک ایک اجلاس بھی نہیں ہوسکا۔بورڈ کے اجلاس کے لیے فائل وزارتِ داخلہ کو ارسال کی جو وزیراعظم ہاوس بھجوائی گئی وہاں سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا:نیکٹا کے سربراہ احسان غنی کی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 11 اگست 2016 11:21

قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی کے درست انداز میں کام نہ کرنے کی ..

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 11 اگست۔2016ء) قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے سربراہ احسان غنی نے واضح کیا ہے کہ ادارے کے درست انداز میں کام نہ کرنے کی وجہ افسران کی نااہلی نہیں، بلکہ حکومت کی عدم توجہ ہے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نیکٹا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قوانین کے مطابق سال میں چار مرتبہ بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سےاب تک ایک اجلاس بھی نہیں ہوسکا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو میرا کام تھا وہ میں نے کیا اور بورڈ کے اجلاس کے لیے فائل وزارتِ داخلہ کو ارسال کردی اور جب انھوں نے ا±س فائل کو وزیراعظم ہاوس بھیجا تو وہاں سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔اس سوال پر کہ کیا آپ نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اس حوالے سے کوئی بات کی؟ احسان غنی کا کہنا تھا کہ جو وجوہات تھیں وہ میں نے بتا دی ہیں، اب آپ کو وزیراعظم ہاو¿س سے رابطہ کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

احسان غنی نے کہا کہ جب میں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو ہمارے پاس دفتر میں افسران کو بٹھانے تک کی جگہ موجود نہیں تھی، لیکن اس مسئلے کو عارضی طور پر حل کیا گیا اور اب ان لوگوں کو نیشنل پولیس بیورو کی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ جگہ کے اس مسئلے کو مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کےلیے ہم نے وزارتِ خزانہ کو درخواست ارسال کردی ہے اور امید ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا، کیونکہ قومی بجٹ میں اس کا ذکر کیا گیا تھا۔

نیکٹا کے سربراہ نے شکوہ کیا کہ دفتر کی جگہ کے مسئلے کو تو 2013 میں ہی حل ہوجانا چاہیے تھا، کیونکہ جب آپ کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوگی تو کون یہاں پر کام کرنے آئے گا۔انھوں نے صوبوں کے عدم تعاون کا بھی شکوہ کیا اور کہا کہ اگرچہ وزیراعظم نے منظوری دی تھی کہ نیکٹا کو جو افسران درکار ہوں گے، وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن فوری اسے دے گا، مگر جب صوبوں سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انھوں نے دفتر سنبھالا تو افسران کی ایک بڑی تعداد نیکٹا میں شامل ہونا چاہتی تھی، لیکن صوبوں نے اجازت نہیں دی۔نیکٹا چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس بھرتی کے لیے ایسے لوگ بھی آئے جو ایک کمرے اور عام سی گاڑی کے ساتھ بھی کام کرنے کے لیے راضی تھے، لیکن مسئلہ افسران کا نہیں انتظامیہ کا ہے۔احسان غنی نے کہا کہ اگر حکومت یہ تمام مسائل حل کردے تو ہمیں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا تعاون اور ان کی حمایت حاصل ہوگی۔

انھوں نے ادارے کے فعال نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ اس وقت ہم ملک میں انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ایک پالیسی بنانے پر کام کررہے ہیں، جس کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔پروگرام کے دوران جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وزیراعظم تو کہتے ہیں کہ انھوں نے ملک سے انتہاپسند سوچ کو ختم کرنا ہے تو پھر اس پر کام کون کرے گا؟ جس پر احسان غنی نے کہا کہ وہ نواز شریف سے شکایت نہیں کریں گے، لیکن جو مسائل انہیں درپیش ہیں اس بارے میں وہ سب کچھ بتا چکے ہیں۔واضح رہے کہ احسان عنی نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خوکش بم دھماکے کے بعد ملک میں انٹیلی جنس کے کردار پر کئی سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :