پارلیمنٹ سے بل پاس ، حکومت کی جانب سے سائبر کرائمز بل کے حوالے سے باقاعدہ آگاہی مہم شروع نہ کی جا سکی ، سزاؤں کے حوالے سے عوام ابھی تک علم

نئے سائبر قانون کے تحت دہشتگردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی ، نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال قید کی سزا ہوگی، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی ، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی

جمعرات 11 اگست 2016 18:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 اگست ۔2016ء) حکومت کی جانب سے سائبر کرائمز بل کے حوالے سے کسی بھی سطح پر عوام میں کسی بھی قسم کی باقاعدہ آگاہی مہم شروع نہیں کی جا سکی ، سزاؤں کے حوالے سے عوام ابھی تک علم ،دونوں ایوانوں سے سائبر کرائمز پر منظور ہونے والے بل کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی جبکہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال قید کی سزا ہوگی۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی جبکہ بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

(جاری ہے)

انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال اور موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر تین، تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔موبائل فون کی سموں کی غیر قانونی فروخت پر بھی پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا جبکہ قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سا لمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔جمعرات کو قومی اسمبلی اور قبل ازیں سینیٹ سے منظور ہونے والے سائبر کرائمز بل کے حوالے سے کسی بھی سطح پر عوام میں کسی بھی قسم کی آگاہی مہم شروع نہیں کی جا سکی سائبر کرائمزکے حوالے سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں عدالتِ عالیہ میں اپیل کی جا سکے گی، اس قانون پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی اور سال میں دو مرتبہ اس بل پر عمل درآمد کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔

اب بل میں صوبوں کے خلاف بات کرنے کو جرم قرار نہیں دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ قابل سزا جرم تھا، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کی جانب سے جن ٹی وی یا ریڈیو چینلز کو لائسنس جاری کیا گیا ہے وہ اس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے،بل میں ایسے 23 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر ضابطہ فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہو سکیں گی ،اب کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھجوانے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا جائے گا،سکیورٹی ایجنسیوں کی مداخلت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ قانون سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔

پارلیمان سے منظور ہونے والے بل کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی جبکہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال قید کی سزا ہوگی۔اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی جبکہ بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال اور موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر تین، تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔موبائل فون کی سموں کی غیر قانونی فروخت پر بھی پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔اس بل کے مطابق انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا جبکہ قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا

متعلقہ عنوان :