فوٹیج سے کوئٹہ دھماکے سے متعلق بہت سے شواہد ملے ہیں بہت جلد دہشت گردوں اور سہولت کاروں تک پہنچ جائینگے، دھماکے میں 6 سے 8 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا، خود کش بمبار کے چہرے کی جلد ،ٹانگیں اور ایک بازو کے علاوہ کچھ اعضاء ملے ہیں، نادار پاکستان بار کونسل کی مشتبہ شخص بارے فراہم کردہ فوٹیج کی شناخت نہیں کرسکا، اردگرد کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی ، ان سے مشتبہ شخص کی ہسپتال آمد کی راستوں کی نشاندہی ہوئی ہے، وکلاء منع کرنے کے باوجود نہ رکے

سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کو بلوچستان کے پولیس حکام کی سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بریفنگ سول ہسپتال کوئٹہ میں سہولیات کی عدم دستیابی پر زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ، این سی ایچ آر حکام کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ایف سی سے بلوچستان کے بی ایریا بارے مکمل بریفنگ طلب کر لی ، بلوچستان حکومت کی جلدصوبے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت کی فراہمی کی ہدایت

بدھ 31 اگست 2016 21:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔31 اگست ۔2016ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کوسانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز بلوچستان پولیس شکیل درانی نے بتایا کہ کوئٹہ دھماکے کے حوالے سے فوٹیج سے بہت سے لنکس ملے ہیں بہت جلد دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں تک پہنچ جائیں گے، خودکش بمبار نے 6 سے 8 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا، خود کش بمبار کے چہرے کی جلد ،ٹانگیں اور ایک بازو کے علاوہ کچھ اعضاء مل گئے ہیں،پاکستان بار کونسل نے مشتبہ شخص کی فوٹیج اور خاکہ جاری کیا ہے جو ہم نے نادرا کو فراہم کیا ہے مگر نادرا اسکی شناخت نہیں کرسکا،ہسپتال اور قریب کی دکانوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی ہے،تمام کیمروں سے مشتبہ شخص کی ہسپتال آمد کی راستوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ،مرحوم بلال انور کاسی ایڈوکیٹ کی شہادت پر وکلاء کو ہسپتال میں اکھٹا نہ ہونے کا کہا گیا مگر وکلاء اس وقت سخت ا شتعال میں تھے اور انہوں نے بات نہیں مانی تھی۔

(جاری ہے)

این سی ایچ آر حکام نے کہا کہ سول ہسپتال کوئٹہ میں سہولیات کا فقدان تھا اگر مناسب طبی سہولیات بروقت دی جاتیں تو 25سے30اموات کم ہوتیں،دھماکہ صبح ساڑھے 9بجے ہوا اور سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے کو 2بجے ڈی ایچ کیو ہسپتال آپریشن تھیٹر میں لایا گیا اور زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ جاں بحق ہو گئے۔بلوچستان پولیس کی جانب سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ دو سالوں میں بلوچستان میں محدود اور پولیس کی زیر نگرانی علاقوں میں قتل ہونیو الے افراد کی تعداد1040ہے،کچھ لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی کیونکہ ہمارے پاس ڈی این اے کی سہولت موجود نہیں،ڈی این اے کروانا ہو تو لاہور سیمپل بھجوانے پڑتے ہیں۔

چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ حکومت سے سخت نالاں ہے اسلئے وہ کسی کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس کو نہیں دیتے، ہمیں مل کر وہاں کے لوگوں کے تحفظات دور کر نا ہوں گے،اج کی بریفنگ میں صرف شہری علاقوں کے اعدادوشمار دئیے گئے بی ایریا میں مسخ سدہ لاشوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے،کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ایف سی سے بلوچستان کے بی ایریا کے حوالے سے مکمل بریفنگ طلب کر لی اور بلوچستان حکومت کی ہدایت کی کہ جلد از جلد صوبے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت میسر کی جائے۔

کمیٹی نے ڈی جی رینجرز سندھ کی اجلاس میں مسلسل عدم شرکت پر وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا بھی فیصلہ کیا۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہوا ۔اجلاس میں کمیٹی ممبران کے علاوہ سیکرٹری وزارت ،ڈی آئی جی پولیس بلوچستان شکیل درانی ،این سی ایچ آر کے چیئرمین ا ور اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈی آئی جی بلوچستان پولیس شکیل درانی نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں بلوچستان میں قتل ہونیو الے افراد کی تعداد1040ہے۔

سال2014-15میں 545اور2015-16میں 459 افرادقتل ہوئے ۔قتل ہونے والے افراد کے لواحقین پولیس میں ایف آئی آر درج نہیں کراتے اور تحقیقات میں سیکورٹی اداروں کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔یہ اعدا دوشمار بلوچستان کے ان علاقوں سے متعلقہ ہیں جہاں پولیس کی عمل داری ہے۔بی ایریا کے اعداد وشمار صوبائی حکومت کے ذریعے امن و امان کے ذمہ دار اداروں سے لئے جا سکتے ہیں۔

چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں بلوچستان کے بی ایریا کے بارے میں بریفنگ دی جائے بی ایریا ایف سی کے زیر کنٹرول ہے۔بلوچستان سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں سے متعلق بریفنگ بھی دی جائے۔آئندہ اجلاس میں ایف سی حکام سے تفصیلات لی جائینگی۔کمیٹی اجلا س میں آگاہ کیا گیا کہ سانحہ کوئٹہ میں بلال انور کاسی ایڈوکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی،جس کے بعد انکو ہسپتال لایا گیا جہاں خودکش دھماکہ ہوا ،جس میں کل77افراد جاں بحق ہوئے ،اور 125زخمی ہوئے ہیں ،جاں بحق ہونے والوں میں 58وکلاء،16سویلین ،3میڈیا پرسنز ،اور ایک نامعلوم شخص جاں بحق ہوا،انہوں نے کہا کہ دھماکے سے قبل پولیس نے وکلاء کو وہاں اکٹھے نہ ہونے کا کہا مگر انہوں نے ہماری بات نہ مانی تھی۔

کمیٹی نے ڈی جی رینجرز سندھ کی اجلاس میں مسلسل عدم شرکت پر وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا بھی فیصلہ کیا، سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ اگر آج کے اجلاس میں امن و امان کے باعث رینجرز کا عذر مان لیا گیا تو آئندہ کہیں سے بھی کوئی کمیٹی اجلاس میں نہیں آئیگا۔گزشتہ ماہ رینجرز نے انسانی حقوق کی جعلی تنظیم کی طرف سے اپنی کارکردگی سراہنے کی رپورٹ جاری کی ہے۔

میں نے نیپال اور ہندوستان میں موجود عالمی انسانی حقوق کمیٹی کے نمائندوں سے بات کی جنہوں نے تنظیم سے لا تعلقی کا اظہا رکیا۔رینجرز فوج کا حصہ ہیں۔بیرونی تنظیم کی وجہ سے قائم ہونے والے منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے رینجرز کمیٹی میں حقیقت بیان کریں۔ اجلاس میں رینجرز کی عدم حاضری پروزیر داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔