امریکا کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کا کردار-2000کے صدارتی انتخابات میں امریکی مسلمانوں نے جارج ڈبلیو بش کی جیت میں اہم کردار اداکیا ‘لیکن پچھلے تین انتخابات میں مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں۔ امریکی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرے گی۔رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 17 ستمبر 2016 15:32

امریکا کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کا کردار-2000کے صدارتی انتخابات ..

واشنگٹن (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر۔2016ء) امریکی مسلمانوں کی اکثریت نے سال2000کے صدارتی انتخابات میں جارج ڈبلیو بش کی جیت میں اہم کردار اداکیا تھا لیکن پچھلے تین انتخابات میں مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں۔امریکی مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور تاثر یہ ہی ہے کہ ان کا جھکاو فطری طورپر ری پبلیکن پارٹی کی جانب ہے۔

لیکن اب ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف ان کا رجحان بڑھتا رہا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرے گی۔ ایک تجزیاتی رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ وہ ووٹروں کے سیاسی رجحان میں تبدیلی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں واقع مسجد دارالحجرہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مضبوط گڑھ سے کہیں دور واقع ہے۔ دارالحکومت کے قریب ریاست ورجینیا کے شہر فالز چرچ کی اس مسجد میں آنے والے بہت سے لوگوں نے جو عقیدے اور خاندانی روایات کے حامی ہیں، ماضی میں ری پبلیکن پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا تھا۔اب ان میں سے اکثر کا یہ کہنا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو صرف اس لیے ووٹ دیں گے تاکہ ان کے ری پبلیکن حریف کو انتخاب جیت کر وائٹ ہاوس میں جانے سے روکا جا سکے۔

مسلم امریکی ووٹر عزمی رحمن کہتے ہیں کہ ہم سب تقریباً اسی انداز میں سوچ رہے ہیں۔ جس طریقے سے ہمارے بارے میں پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، ہم اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ایک اور مسلمان خاتون ووٹر سارہ شورانی نے کہاکہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو وائٹ ہاوس نہ لائیں جو اسلام کے خوف میں مبتلا ہو۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ان تمام مسلمانوں کو، جنہوں نے ووٹ دینے کے لیے اپنا اندراج نہیں کرایا، لازمی طور پر اپنا نام درج کرانا چاہیے تاکہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دے سکیں۔

جمعہ کو دارالحجرہ کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون بہن فائزہ دین نے خواتین ووٹروں کو ووٹروں کی فہرست میں اپنے نام کا انداج کرانے پر راغب کرنے کے لیے نوجوان رضاکاروں کے ایک گروپ کی قیادت کی۔ ان کی یہ کوشش عوامی سطح پر دس لاکھ مسلمان ووٹروں کے ناموں کا اندراج کرانے کی ملک گیر پیمانے کی مہم کا ایک حصہ ہے۔یہ ایک اہم سال ہے۔ آپ کے سامنے ہیلری کلنٹن ہے اور یہ جذباتی شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

یہ چیز بہت اہم ہے۔ اگر ہم ووٹ نہیں دیں گے تو ٹرمپ جیت سکتا ہے۔گیانا میں پیدا ہونے والی فائزہ دین کی طرح، زیادہ تر امریکی مسلمان تارکین وطن ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے یہ دکھاتے ہیں کہ مسلمانوں کی 35 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر کا جھکاو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف ہے اور اس بارے میں ان کے خیالات و نظریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔2000ءکے انتخابات میں امریکی مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت نے وہائٹ ہاوس میں داخلے کے لیے جارج ڈبلیو بش کی حمایت کی تھی، لیکن پچھلے تین انتخابات میں مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر جان ایسپوسٹیو کہتے ہیں کہ 2000 کا انتخاب ایک استثنائی معاملہ تھا۔تاریخی لحاظ سے، ڈیموکریٹک پارٹی کو ری پبلیکن پارٹی کے مقابلے میں ایک ایسی عوامی جماعت سمجھا جاتا تھا جس میں عام لوگوں کی زیادہ نمائندگی ہے اور اب بھی بہت سے لوگ اسے انتظامیہ کی مراعات یافتہ طبقے کی ایک جماعت سمجھتے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے اختلاف میں شدت صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی شعلہ بیانیوں سے پیدا ہوئی جسے مسلم مخالف سمجھا گیا۔ایسے میں جب کہ امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کی تعداد بدستور بہت کم ہے، سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ فلوریڈا، اوہائیو، ورجینیا، مشی گن اور پنسلوینیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادیاں صدارتی انتخابات میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی کمیونٹی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ متنوع ہو گی ان کی سیاسی وابستگیاں بھی مزید متنوع ہوں گی۔اور یہی وجہ ہے جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر ایسپوسٹیو کہتے ہیں کہ یہ چیز ڈیموکریسی اور کمیونٹی دونوں کے لیے اچھی ہے۔