مشرقی تیمورکی طرح کشمیر کے عوام کو بھی ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت دیا جائے، جموں و کشمیر کے عوام اپنے جائز حق خودارادیت کو مسلسل دبائے جانے کیخلاف احتجاج کا جمہوری حق استعمال کر رہے ہیں

جموں و کشمیر کے بارے میں وزیراعظم کے نمائندگان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرا منصب کی امریکی خصوصی نمائندے سفیر رچرڈ اولسن اور امریکی محکمہ خارجہ میں دیگر سینئر حکام کے ساتھ ملاقات میں گفتگو

منگل 4 اکتوبر 2016 13:51

اسلام آباد ۔ 4 اکتوبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔۔04 اکتوبر۔2016ء) جموں و کشمیر کے بارے میں وزیراعظم کے نمائندگان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرا منصب نے کہا ہے کہ مشرقی تیمورکی طرح کشمیر کے عوام کو بھی ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت دیا جائے، جموں و کشمیر کے عوام اپنے جائز حق خودارادیت کو مسلسل دبائے جانے کیخلاف احتجاج کا اپنا جمہوری حق استعمال کر رہے ہیں جس کا وعدہ کئی قراردادوں میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے کر رکھا ہے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی خصوصی نمائندے سفیر رچرڈ اولسن اور امریکی محکمہ خارجہ میں دیگر سینئر حکام کے ساتھ واشنگٹن میں اپنی ملاقات میں کیا۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی بھی ان کے ہمراہ تھے۔

(جاری ہے)

دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق خصوصی نمائندگان نے امریکی عہدیداران کو بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری عوام کی تحریک مقامی اور ازخود ہے جسے نوجوان کشمیری حریت پسند برہان وانی کی ماورائے عدالت شہادت کے بعد مزید تقویت ملی ہے۔

مشاہد حسین سید اور شذرا منصب نے انہیں مقبوضہ کشمیر، جو کرہ ارض پر سب سے زیادہ تعداد میں فوجی تعیناتی کا علاقہ ہے، میں بے گناہ اور نہتے شہریوں کیخلاف بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں اور وحشیانہ مظالم کے دستاویزی ثبوت سے بھی آگاہ کیا۔ اس امر کو بھی اجاگر کیا کہ کس طرح چھرے والی بندوقوں اور دیگر ممنوعہ ہتھیاروں کو بھارتی حکام کی طرف سے کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیری شہریوں کو ایک جگہ جمع ہونے، عبادت کرنے اور اپنے عقیدے پر عمل کرنے سمیت ان کے دیگر بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو یقین دلایا کہ یہ بھارت ہی تھا جو جموں و کشمیر کا مقدمہ 1948ء میں اقوام متحدہ لیکر گیا تھا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی موجودہ جدوجہد اپنے مستقبل کا تعین کرنے کیلئے ان سے وعدہ کردہ استصواب رائے کے قانونی اور سفارتی حق سے محروم رکھنے جانے کی بناء پر ان کی مایوسی کا نتیجہ ہے۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے امریکا پر قانونی اور اخلاقی طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کشمیر کے عوام اسی جذبے کے تحت اپنا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت استعمال کرنے کے قابل ہوں جیسا کہ بین الاقوامی برادری نے مشرقی تیمور کے عوام کو یہ حق دیا تھا۔ خصوصی نمائندوں نے بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کیلئے پاکستان اور بھارت کیلئے اقوام متحدہ فوجی مبصر گروپ کو فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

امریکی عہدیداران نے کشمیر میں بھارتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نوٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی زیادتیوں کو انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ان کی سالانہ عالمی رپورٹ میں دستاویز بندی اور رپورٹ کی جا رہی ہے۔ امریکی عہدیداران نے مزید بتایا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رپورٹ نے امریکی عالمی رپورٹ کا ایک طویل ترین حصہ تشکیل دیا۔ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ خطے میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے کشمیر کے تنازعہ کا جلد حل ضروری ہے۔