روس اور امریکا کے درمیان نئی سردجنگ کا آغازیا تیسری عالمی جنگ کے سائے-شام کے معاملے پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناﺅ عالمی امن کے خطرے کا باعث ہوسکتا ہے- اوباما انتظامیہ روس سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی بجائے اس پر حکم چلانا چاہتی ہے۔کچھ عرصے کے لیے روس نے خود کو عالمی معاملات سے پیچھے کر لیا تھا، لیکن اب وہ پورے زور و شور سے عالمی سٹیج پر واپس آ چکا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ ارد گرد کے ممالک میں اپنے کردار کو متسحکم کر لے اور اس تاثر کو غلط ثابت کرے کہ مغرب کے ہاتھوں اس کی سبکی ہوتی رہے گی۔برطانوی نشریاتی ادارے کی خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 19 اکتوبر 2016 09:32

روس اور امریکا کے درمیان نئی سردجنگ کا آغازیا تیسری عالمی جنگ کے سائے-شام ..

لندن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19اکتوبر۔2016ء) روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات جس قدر خراب آج کل ہیں، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ امریکی افسران حلب پر روس اور شامی فوجوں کے حملوں کو 'بربریت' کہہ رہے ہیں اور روس کو خبردار کر چکے ہیں شام میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔دوسری جانب روسی صدر بھی واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات کی خرابی کا اظہار واضح الفاظ میں کر چکے ہیں۔

ان کا اصرار ہے کہ اوباما انتظامیہ روس سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی بجائے اس پر حکم چلانا چاہتی ہے۔اس کے باوجود شام کے معاملے میں روس اور امریکہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ تند و تیز جملوں کے تبادلے اور الزامات کے باوجود، دونوں یہ جانتے ہیں کہ شام میں جاری ڈرامے کا جو بھی اختتام ہو گا، اس میں دونوں ممالک کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ ماسکو جانتا ہے کہ شام کی مستقل جنگ نہ امریکہ کے مفاد میں اور نہ ہی خود روس کے مفاد میں ہے۔لیکن جب تک دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا نہیں ہوتا اور دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے، اس وقت تک شام کے معاملے میں دونوں کے درمیان مذاکرات کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ روس اور امریکہ کے تعلقات اتنے بگڑ جائیں گے، بلکہ اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے دونوں کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔

کچھ عرصے کے لیے روس نے خود کو عالمی معاملات سے پیچھے کر لیا تھا، لیکن اب وہ پورے زور و شور سے عالمی سٹیج پر واپس آ چکا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ ارد گرد کے ممالک میں اپنے کردار کو متسحکم کر لے اور اس تاثر کو غلط ثابت کرے کہ مغرب کے ہاتھوں اس کی سبکی ہوتی رہے گی۔تو سوال پیدا ہوتا ہے حالات اس نہج تک پہنچے کیسے؟ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور مغرب ایک نئی قسم کے تعلقات قائم کرنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا امریکہ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور روس کے جذبات کی پرواہ نہیں کی، یا روس ابھی تک سوویت دور کی عظمت کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے؟ روس اور امریکہ کے معاملات اتنے خراب کیوں ہو گئے ہیں، اور کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ دونوں میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے؟ امریکہ کی جورج ٹاون یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار پال آر پِلر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بنیادی غلطی خود مغرب کی ہے۔

پال آر پِلر کے خیال میں روس اور مغرب کے تعلقات خراب ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے روس کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے قبول ہی نہیں جو اپنے کاندھے سے اشتراکیت کا طوق اتار چکا تھا۔ ان کا کہنا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد روس کو اقوام کی برادری میں خوش آمدید کہا جاتا، لیکن روس کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے مغرب نے روس کو سوویت یونین کا جانشین سمجھا۔

ایک ایسا ملک جس پر مغرب کبھی بھی اعتماد نہیں کر سکتا۔آپ چاہیں تو اسے مغرب کا پہلا گناہ کہہ سکتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد نیٹو کا دائرہ اثر بڑھانے کے جوش میں مغرب نے پولینڈ، چیک ریپبلک اور ہنگری جیسے ان ممالک کو اس اتحاد میں شامل کر لیا جہاں قوم پرستی کی روایت بہت قدیم تھی اور یہ ممالک ماسکو کے تسلط کے خلاف ایک عرصے سے جد وجہد کر رہے تھے۔

لیکن نیٹو کا پھیلاو¿ ان ممالک تک محدود نہ رہا بلکہ اس میں بلقان کی ان ریاستوں کو بھی شامل کر لیا گیا جن کے بیشتر علاقے سوویت یونین کا حصہ تھے۔ اسی لیے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب جارجیا اور یوکرین کی مغربی مدار میں شمولیت کی بات ہوتی ہے، اور روس ان ممالک کے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ روس کو یقین ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی مغرب نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

اس حوالے سے امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے حلقوں میں بحث جاری ہے کہ روس کا مو¿قف درست ہے یا مغرب کا۔ کیا مغرب اور روس کے تعلقات میں سرد مہری کی ذمہ داری مغرب کی اس غلطی کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس کو قبول نہیں کیا یا ہمیں اس کی ذمہ داری روس کی حالیہ جارحانہ کارروائیوں پر ڈالنی چاہیے جس میں وہ جارجیا، شام اور یوکرین پر چڑھائی کر چکا ہے۔

برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی 6 کے سابق سربراہ اور اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سابق سفیر، سر جون سیورز کا کہنا ہے کہ مغرب نے پچھلے آٹھ سالوں میں روس کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات بنانے پر خاص توجہ نہیں دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن اور ماسکو یہ اصول طے کر لیتے کہ انھیں تعلقات کی اس راہ پر کیسے آگے بڑھنا ہے تو شام اور یوکرین جیسے علاقائی مسائل حل کرنا آسان ہو جاتا۔

اگر دونوں یہ تسلیم کر لیتے کہ وہ ایک دوسرے کے قائم کردہ نظاموں کو گرانا نہیں چاہتے، تو آج حالات بہتر ہوتے۔میں نے اس سلسلے میں کئی ماہرین سے بات کی اور انھوں نے بھی اوباما انتظامیہ کی سفارتکاری کی اس خرابی کے بارے میں اشارہ کیا کہ اس میں کوئی تنوع نہیں اور اکثر اوقات آپ کو سمجھ نہیں آتی کی امریکہ اصل میں کیا چاہتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بطور واحد عالمی طاقت، امریکہ کے اثر ورسوخ میں کمی آ رہی ہوں، لیکن کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے پاس جو طاقت بچی ہے وہ اسے کیسے استعمال کرے۔

کیا واقعی امریکہ کا جھکاو ایشیا کی جانب ہو رہا ہے اور کیا واقعی یورپ اور مشرق وسطیٰ پر اس کی توجہ کم ہوتی جا رہی ہے یا یہ محض دکھاوا ہے؟کیا امریکہ محض نعرے ہی لگاتا رہے گا یا ان پر عمل کرنے کے لیے اپنی طاقت بھی استعمال کرے گا؟ ہم جانتے ہیں کہ شام کی حد تک تو امریکہ صرف نعرے بازی ہی کرتا رہا ہے۔اور کیا امریکہ کو واقعی معلوم ہے کہ اس نے ماسکو کے حوالے سے جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس کے مضمرات کیا ہوں گے۔

2014 میں جب روس نے کرائیمیا کو اپنے علاقے میں شامل کیا تھا تو روسی صدرپوٹن نے روسی پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ کسی سپرنگ کو اس کی حد سے زیادہ دبائیں گے تو جب یہ واپس پلٹے گا تو آپ کو زخمی کر دے گا۔یہ بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے۔ پال پِلر کہتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے حالیہ خراب تعلقات کے حوالے سے سرد جنگ کے الفاظ استعمال کرنا درست نہیں ہوگا۔

آج عالمی سطح پر نظریات کی کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی جو سرد جنگ کے دور میں تھی اور نہ ہی روس اور مغرب کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ہو رہی ہے۔جو چیز باقی ہے وہ اثر ورسوخ اور عالمی غلبے کی لڑائی ہے اور اس حوالے سے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کمزور ہوا ہے جبکہ امریکہ کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ آج بھی ایک سپر پاور ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم زوروں پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ روس اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ وہ دنیا کے ان علاقوں میں جہاں تنازعات جاری ہیں، کچھ ایسا کرنے کو کوشش کر رہا ہے جو وائٹ ہاوس کے نئے مکین کی مشکلات میں اضافہ کر دے۔

متعلقہ عنوان :