امریکا کے صدارتی انتخابات :نسل پرستی سے امریکی فیڈریشن خطرے میں- 89 فیصد سیاہ فام ووٹرکا ہیلری کلنٹن کو ووٹ دینے کے عزم کا اظہار- 84 فیصد کا خیال ہے کہ رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نسل پرست ہیں- ڈیموکریٹس اپنی تمام ترتوانائیاں اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ وہ سیاہ فام‘لاطینی امریکن‘مسلمان اور دیگر کمیونٹیزکو 8نومبر کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوں -اس سلسلہ میں امریکا کی تمام ریاستوں میں موجود ڈیموکریٹ پارٹی کے رضا کار ان کمیونٹیزکے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جو ڈونلڈٹرمپ کے بیانات سے ناراض ہیں -امریکی صدارتی انتخابات پر خصوصی تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 3 نومبر 2016 16:06

امریکا کے صدارتی انتخابات :نسل پرستی سے امریکی فیڈریشن خطرے میں- 89 فیصد ..

واشنگٹن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔03 نومبر۔2016ء) امریکہ کے 89 فیصد سیاہ فام ووٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیں گے جبکہ 84 فیصد کا خیال ہے کہ رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نسل پرست ہیں۔ لیکن بہت سی رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاہ فام ووٹرز اس جوش و خروش کے ساتھ باہر نہیں نکل رہے ہیں جس طرح وہ براک اوباما کے لیے 2008 اور 2012 میں نکلے تھے۔

امریکہ میں آج بھی سیاہ اور سفید فام کی خلیج اور صدارتی انتخاب پر اس کے اثرات کے بارے میں ہے۔تاہم ڈیموکریٹس اپنی تمام ترتوانائیاں اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ وہ سیاہ فام‘لاطینی امریکن‘مسلمان اور دیگر کمیونٹیزکو 8نومبر کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوں -اس سلسلہ میں امریکا کی تمام ریاستوں میں موجود ڈیموکریٹ پارٹی کے رضا کار ان کمیونٹیزکے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جو ڈونلڈٹرمپ کے بیانات سے ناراض ہیں -امریکی شہر بفیلو کے دوسرے سب سے قدیم بار کے مالک ٹم والس کا بزنس کافی اچھا ہے، بار میں بھیڑ کافی ہوتی ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو امریکہ کے موجودہ حالات سے خاصے ناراض نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا بزنس تو کافی اچھا چل رہا ہے، آپ کو کس بات سے سب سے زیادہ ناراض ہیں، تو صدر اوباما پر تنقید کے ساتھ سیاہ فام لوگوں کے لیے انتہائی اشتعال انگیز لفظ استعمال کیا اور کہا وائٹ ہاو¿س اس سیاہ فام صدر کے لیے نہیں ہے۔ یہ امریکا بھر میں نسلی تعصب کوظاہرکرتا ہے جوکہ ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران بیانات اور نسل پرستی پر مشتمل تقاریرکا نتیجہ قراردیا جارہا ہے-امریکا کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو اندازہ نہیں کہ ان کے غیرذمہ درانہ بیانات اور تقاریرکی وجہ سے ملک میں ایک ایسی بحث نے جنم لیا ہے جس نے برسوں پہلے دفن کیئے گئے نسلی تعصب کے عفریت کو دوبارہ زندہ کردیا ہے اور جو امریکا کی فیڈریشن کے لیے حظرناک ہے- آٹھ سال قبل اوباما کے پہلے تاریخی انتخابات سفید فام ووٹرز صدراوباما کی ذات پر تنقید کرتے رہے ان کی حب الوطنی کو نشانہ بنایا گیااور انہیں مسلمان قراردیا گیا مگر انتخابات کے بعد سب کچھ معمول پر آگیا-لیکن آٹھ سال بعد بھی اوباما کے متعلق سفید فام ووٹرز میں جس طرح کا غصہ پایا جاتا ہے وہ کافی حد تک نسلی امتیازات کے سبب منقسم امریکہ کی کہانی کا غماز ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما کے ابتدائی دنوں میں ان کے امریکی ہونے پر سوال اٹھایا اور پھر اس انتخابی مہم کے دوران بھی ان باتوں کو ہوا دے کر اس خلیج کو مزید وسیع کیا ہے۔افریقی امریکی نژاد کرس براو¿ن کلیولینڈ اوہائیوکی ایک لانڈری میں کام کرتے ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں وہ پورا علاقہ سیاہ فام لوگوں پر مبنی ہے اور یہ علاقہ کافی پسماندہ ہے اور یہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ ٹرمپ کو نسل پرست مانتے ہیں اور یہ طے کر چکے ہیں کہ انھیں ووٹ نہیں دیں گے، لیکن یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ہیلری کے لیے ووٹ ڈالنے نکلیں بھی یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب اوباما کے آٹھ سالوں میں ہمارے حالات نہیں بدلے، تو ہلیری سے کیا توقع کریں۔ تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رپبلین کانگریس نے اوباما کو کچھ بھی کرنے نہیں دیا۔

ہلیری کلنٹن کے لیے یہ ووٹ اہم ہیں اور کبھی اوباما تو کبھی مشیل اوباما کو ان علاقوں میں بھیج کر وہ جوش پیدا کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تازہ جائزوں کے مطابق اب بھی 90 فیصد سیاہ فام ووٹرز اوباما کے لیے بہتر رائے رکھتے ہیں۔گذشتہ دو سالوں میں پولیس والوں کے ہاتھوں بہت سے سیاہ نوجوانوں کی موت نے بھی نسل پرستی کی بحث کو انتخابی مسئلہ بنایا ہے۔

ٹرمپ نے اسے نسل پرستی کی جگہ قانون اور امن و امان کا مسئلہ قرار دیا ہے اور خود کو لاء اینڈ آرڈر امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے پولیس کو اپنا مکمل تعاون دینے کا وعدہ کیا ہے۔مزوری ریاست کے شہر فرگوسن میں ایک سیاہ نوجوان مائیکل براو¿ن کی پولیس کے ہاتھوں موت کی بات 'بلیک لائیوز میٹرز' یعنی سیاہ فام کی زندگی اہمیت رکھتی ہے نامی تحریک نے زور پکڑا تھا وہاں ٹرمپ کی یہ بات لوگوں کو کافی ناگوار گزر رہی ہے۔

جس سڑک پر مائیکل براو¿ن کو گولی ماری گئی، اسی جگہ کی رہنے والی ایک سیاہ فام خاتون نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ ٹرمپ کی باتیں جیسے نسل پرستی کو دوبارہ مرکزی دھارے میں لے آئی ہیں۔گذشتہ دنوں میں امریکی پولیس کے ہاتھوں کئی غیر مسلح سیاہ فام باشندوں کی ہلاکتوں سے مختلف امریکی شہروں میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا-وہ کہتی ہیں یہاں ڈھنگ کے سکول نہیں ہیں، روزگار نہیں ہے اور پولیس ہر سیاہ فام نوجوان کو مجرم کے طور پر دیکھتی ہے۔

ٹرمپ نے اسی سوچ کو اور مضبوط کیا ہے۔ویران مکان، بند سکول، بے روزگاری، منشیات یہ سب جیسے بہت سے سیاہ فام علاقوں کی شناخت بن گئے ہیں۔برسوں سے ڈیموکریٹس ان کی حالت بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے آئے ہیں لیکن اصلاح یا تو بالکل نہیں ہے یا پھر اس کی رفتار اتنی سست ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ٹرمپ اب ان سے کہہ رہے ہیں سیاہ فام ووٹروں کو ان کی طرف آنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے اور ٹرمپ کے راج میں حالات بہتر ہی ہو سکتے ہیں، بدتر نہیں۔

ہلیری کلنٹن کے شوہر بل کلنٹن کی حکومت کے دوران سیاہ فام لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے تھے اور ہیلری اسی دور کو واپس لانے کا وعدہ کر رہی ہیں۔کئی ریاستوں میں سیاہ فام ووٹرز جیت اور ہار کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام ووٹرز اگر ووٹ ڈالنے نہیں نکلتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ ٹرمپ کو ہوگا اور ہیلری کلنٹن کی ٹیم یہ پیغام ان ووٹروں تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔آٹھ سال پہلے وائٹ ہاو¿س میں پہلے سیاہ فام صدر کے پہنچنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ امریکہ نے شاید نسل پرستی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن 2016 کے امریکہ کی تصویر اس امید سے مطابقت نہیں رکھتی۔