اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان نے مساجد میں اذان دینے کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا متنازعہ قانون منظور کرلیا

مساجد کے پاس رہنے والے لوگوں سے بڑی تعداد میں ’’شور شرابے‘‘ کی شکایات موصول ہوئی تھیں ،ْ اسرائیلی وزیر اعظم چارعرب سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیاز اور تعصب کا شاخسانہ قرار دیدیا قانون کا اصل مقصد شور کم کر نانہیں شور پیدا کر ناہے ،ْ عربوں اور یہودیوں کے مابین بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوششیں متاثر ہوں گی ،ْ اسرائیلی ڈیمو کریٹک انسٹی ٹیوٹ

پیر 14 نومبر 2016 13:16

اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان نے مساجد میں اذان دینے کیلئے لاؤڈ اسپیکر ..
تل ابیب(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 نومبر2016ء) اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان نے مساجد میں اذان دینے کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا متنازعہ قانون منظور کرلیا ہے جس پر شدید تنقید شروع ہوگئی ۔اسرائیلی اخبار ’’ہاریتز‘‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسرائیل کے وزیراعظم بنجیمن نیتن یاہو سمیت دوسرے صہیونی ارکانِ پارلیمنٹ نے اس قانون کی بھرپور حمایت کی۔

نیتن یاہو نے کہا کہ انہیں اسرائیل میں مساجد کے پاس رہنے والے لوگوں سے بڑی تعداد میں ’’شور شرابے‘‘ کی شکایات موصول ہوئی تھیں جن کی بناء پر یہ قانون بنایا گیا ہے۔’’القائمة المشترکہ‘‘ نے (جو اسرائیل میں چار عرب سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہی) اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیاز اور تعصب کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت اسرائیلی آبادی کا 17.5 فیصد عربوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان ہے۔

ناقدین کے مطابق یہ قانون غیرضروری ہے جس سے تفرقہ پیدا ہوگا ’’شور محدود کرنے‘‘ کے اس قانون کا سب سے زیادہ اثر مساجد سے دی جانے والی اذانوں پر پڑیگا۔قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ‘‘ نامی تھنک ٹینک کی نسرین حداد حج یحییٰ نے کہا کہ اس کا اصل مقصد شور کم کرنا نہیں بلکہ وہ ’’شور پیدا کرنا ہے جس سے عربوں اور یہودیوں کے مابین بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔

‘‘ہاریتز نے بن یامین نیتن یاہو کے مؤقف کی حمایت میں لکھا کہ بہت سے یورپی ممالک میں مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی پابندی ہے جس کا مقصد لوگوں کو تکلیف سے بچانا ہے جبکہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا پہلا فتوی مصر کی جامعةالازہر نے آج سے برسوں پہلے جاری کیا تھا۔ گویا اسرائیل کا یہ قانون کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی مثال خود عالمِ اسلام میں بھی موجود ہے۔

متعلقہ عنوان :