ترک صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا بائیکاٹ ، پی ٹی آئی کے اندر پھوٹ پڑ گئی ، کئی ارکان اسمبلی ناراض

معاملے پر پارٹی قیادت نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا،اگر پارٹی سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد اپنا دھرنا منسوخ کرسکتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی‘ سینیٹرز اور ارکان اسمبلی کا شکوہ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے وقت کی کمی کے باعث رابطہ نہ کیا جاسکا، پارٹی قیادت کے فیصلوں کی تائید کرنے کے پابند ہیں ‘ شاہ محمود قریشی

پیر 14 نومبر 2016 14:40

ترک صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا بائیکاٹ ، پی ٹی آئی ..

لاہور /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 نومبر2016ء) پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ترک صدر طیب اردگان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر پارٹی کے اندر ہی پھوٹ پڑ گئی ، کئی ارکان اسمبلی ناراض ہوگئے، جب ان سے رابطہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کے کئی سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی نے شکوہ کیا کہ اس معاملے پر پارٹی قیادت نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق پی ٹی آئی نے ہفتے کے روز اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کے ارکان 17 نومبرکو طلب کیے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے جس سے ترک صدر خطاب کریں گے۔میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اعلان کردیا تھا کہ پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتی جس کی سربراہی ایک متنازع وزیر اعظم کررہا ہو جسے کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم پارٹی کے اس فیصلے پر کئی ارکان اسمبلی نے ناراضی کا بھی اظہار کیا، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ مجھے صبح اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کہ پارٹی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔رکن اسمبلی نے شکوہ کیا کہ پارٹی قیادت میں سے کسی کو بھی اتنی زحمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اقدام پر ارکان اسمبلی کی رائے لے لے۔

پارٹی ذرائع نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرنے سے قبل سینیٹ میں اپنے پارلیمانی لیڈر نعمان وزیر سے بھی مشورہ نہیں کیا۔ایک اور رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایک پارٹی جو جدید ٹیکنالوجی اور واٹس ایپ اور ٹوئیٹر کے ذریعے رابطے کے حوالے سے جانی جاتی ہے اس نے ان فیصلے کا اعلان کرنے سے قبل ان ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ارکان سے رائے نہیں لی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں قومی اسمبلی کے مسلسل بائیکاٹ کی منطق ہی نہیں سمجھ آتی جبکہ پارٹی کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ کہ وزیراعظم خود کو احتساب کے لیے پیش کریں، پورا ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد اپنا دھرنا منسوخ کرسکتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹی کے بنیادی ڈھانچے میں نام نہاد اسٹریٹجی کمیٹی کا کوئی کردار نہیں ہے۔پی ٹی آئی ایڈوائزری کمیٹی کے سابق رکن عبدالقیوم کنڈی نے بیان جاری کیا کہ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وہ غیر آئینی اور غیر قانونی کمیٹی کی جانب سے کیے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ترک صدر کے دورہ پاکستان کو اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے متنازع نہیں بنانا چاہیے، پی ٹی آئی پہلے ہی سی پیک کے حوالے سے متنازع بیانات دے کر بہت حد تک چینی دوستوں کی خیر خواہی سے محروم ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترک صدر کے خطاب کے بائیکاٹ سے غلط پیغام جائے گا ، میں چیئرمین عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور پارلیمانی عمل کا حصہ بنیں۔اس حوالے سے جب شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے وقت کی کمی کے باعث رابطہ نہ کیا جاسکا۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی سینئر رہنمائوں پر مشتمل ہے جس میں ان سمیت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین، اسد عمر، شفقت محمود، عارف علوی، منزہ حسن اور شیریں مزاری شامل ہیں۔جب ان سے کہا گیا کہ پارٹی کے میڈیا آفس کی جانب سے اجلاس کی جاری کی جانے والی تصویر میں نہ تو آپ اور نہ ہی جہانگیر ترین اور عارف علوی موجود تھے تو انہوں نے کہا کہ شائد میں تصویر لیے جانے کے بعد پہنچا ہوں گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جہانگیر ترین ملتان اور عارف علوی کراچی میں تھے لیکن ان سے مشاورت کی گئی۔تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد لیتے ہوئے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے بھی رابطہ کیا جاسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری نہیں لہٰذا ہر رکن اسمبلی سے مشاورت کرنا ممکن نہیں ، ارکان اسمبلی اس بات کے پابند ہیں کہ وہ پارٹی قیادت کے فیصلوں کی تائید کریں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی قیادت میں پی ٹی آئی کا وفد ترک سفیر سے ملاقات کرے گا اور بائیکاٹ کے فیصلے کے محرکات سے آگاہ کرے گا۔