ْعالمی سطح پر انٹرنیٹ آزاد نہیں رہا،صارفین کو سزائیں دینے کے حربے دوگنا ہوچکے ہیں، رپورٹ

منگل 15 نومبر 2016 12:24

واشنگٹن ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 نومبر2016ء) عالمی سطح پر انٹرنیٹ اتنا آزاد نہیں رہا جتنا آج سے چھ سال پہلے تھا، آزادیِ اظہار پر قدغن لگانے، ’انکرپشن ٹیکنالوجی‘ پر بندش لاگو کرنے اور قومی اہل کاروں کی جانب سے ناقابلِ قبول گردانے جانے والے مواد کو پوسٹ اور شیئرنگ کرنے والے صارفین کو سزائیں دینے کے حربے دوگنا ہوچکے ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق یہ بات سالانہ ’فریڈم آن دی نیٹ‘ رپورٹ میں کہی گئی ہے، جس کی چند تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ یہ رپورٹ واشنگٹن ڈی سی میں قائم، جمہوریت نواز تھنک ٹینک، ’فریڈم ہاؤس‘ نے مرتب کی ہے، جس کے تحقیق کاروں کا اندازہ ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے دو تہائی صارفین ایسے ملکوں میں مقیم ہیں جہاں آن لائن سرگرمی پر سخت قدغن عائد ہی؛ جہاں پر اٴْن کی جانب سے پوسٹ کردہ اطلاعات پر سخت جرمانے عائد کیے جاتے ہیں، جن میں قید کیا جانا اور کوڑے مارنے تک کی سزائیں شامل ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا کی65 ملکوں میں کرائے گئے رائے عامہ کے اس جائزے کی بنیاد پر یہ طے کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی آزادی کے حوالے سے چین، ایران، شام اور ایتھیوپیا میں سب سے زیادہ زیادتی برتی جاتی ہی؛ جن کے بعد ازبکستان، کیوبا، ویتنام اور سعودی عرب کا نام آتا ہے۔ کچھ ممالک، جن میں شمالی کوریا شامل ہے، جن کا کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل ریکارڑ ہے، اٴْنھیں اس مطالعے میں شامل نہیں کیا گیا۔

اِس ضمن میں، جن ملکوں میں سب سے زیادہ زوال آیا وہ یوگنڈا، بنگلہ دیش اور کمبوڈیا ہیں۔ محض 14 ملک ایسے ہیں جن میں کسی حد تک بہتری دیکھی گئی۔ صرف تین ملک ایسے ہیں جن میں دنیا کے آن لائن صارفین کا اندازاً 40 فی صد بستا ہے، جو چین، بھارت اور امریکہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق چین میں نئے ’سائبر سکیورٹی‘ کے قوانین کو بدترین سطح پر دیکھا جا رہا ہے۔

گذشتہ کئی برس سے، چین نے آن لائن ’’افواہیں پھیلانے‘‘ یا ’’قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے‘‘ کو قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے اور ’وی پی این‘ نظام کے ذریعے بندش زدہ ہزاروں ویب سائٹس تک رسائی اور استعمال کے خلاف متعدد سخت کارروائیاں کی گئی ہیں۔رپورٹ کے مصنفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں حکومتیں مختلف قسم کے مواد کو قابل احتساب بنا رہے ہیں، جن کا انحصار ترجیحات پر مبنی ہے۔

متعلقہ عنوان :