اقوام متحدہ طالبان امیر اور دیگر پر پابندی لگائے‘افغان صدر اشرف غنی

مئی میں امریکی ڈرون حملے میں ملا محمد منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان نے مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا تھا

منگل 15 نومبر 2016 12:57

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2016ء) افغان صدر اشرف غنی نے ملک میں امن کے قیام کو نقصان سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان سربراہ مولوی ہیبت اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں کے نام پابندیوں کی فہرست میں شامل کردیں۔برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے دارالحکومت کابل میں اقوام متحدہ کی پابندی کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کے بعد اپنے ایک جاری بیان میں کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنی پابندیوں کی فہرست میں دہشت گردوں کے نام شامل کرے جس میں طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ کا نام بھی شامل کیا جائے۔

خیال رہے کہ افغان صدر کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب افغان فورسز کو ملک میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے متعدد اہم علاقوں میں شدید مزاہمت کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے میں بگرام کے نیٹو ائیر بیس جبکہ مزار شریف میں جرمن قونصلیٹ پر دو تباہ کن خود کش حملوں کی ذمہ داری بھی مذکورہ گروپ کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔دوسری جانب طالبان کی جانب سے امن مذاکرات میں شمولیت کیلئے پیش کی گئی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے سینئر کمانڈروں کے نام اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکالے جائیں، جس کی وجہ سے ان رہنماؤں اثاثے منجمد ہیں اور سفر پر پابندی عائد ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں رواں سال مئی میں امریکی ڈرون حملے میں ملا محمد منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان نے مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا تھا۔جس کے ساتھ ہی طالبان نے افغان امن مذاکراتی عمل سے اس وقت تک علیحدگی اختیار کرنے اعلان کیا تھا جب تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکال اور طالبان رہنماؤں پر موجود پابندیوں کو اٹھا نہیں لیا جاتا۔

واضح رہے کہ یہ شرائط افغان طالبان کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کیلئے پیش کی جانے والی متعدد شرائط کا حصہ ہیں۔تاہم غیر ملکی میڈیا اور کچھ مقامی اور غیر ملکی حکام نے متعدد مرتبہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ افغان امن مذاکراتی عمل درپردہ جاری ہیں لیکن یہ انتہائی سست روی کا شکار ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ سال افغان امن مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آئی تھی، ملا عمر کے بعد ملا محمد منصور کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

اس وقت سے اب تک متعدد مرتبہ امن مذاکراتی عمل کی بحالی کے اقدامات کیے گئے ہیں تاہم اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔مذکورہ امن مذاکراتی عمل میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :