جو دستاویزات جمع کروائی گئیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کے برعکس ہیں- صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کرینگے۔سپریم کورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 نومبر 2016 13:19

جو دستاویزات جمع کروائی گئیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 نومبر۔2016ء) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ پاناما کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے،ہم بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ،ہم صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کرینگے۔ عمران خان، سراج الحق، شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ 700صفحات ایک طرف سے 1600دوسری طرف سے جمع کرائے گئے ، ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔

بنچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف نے 6سو سے زائد صفحات کی دستاویزات جمع کرائیں جن کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں ، درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب خود ساختہ جلاوطنی میں چین چلے گئے ہیں، ہم کیا کریں؟ نعیم بخاری نے جو کاغذات جمع کرائے ان کی ضرورت نہیں تھی، اخبارات کے تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کی دستاویزات جمع کرارہاہوں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل جمع کرادیتے ہم دیکھ تو لیتے، حامد خان نے کہا کہ انہوں نے دستاویزات پہلے جمع کرانی تھی نا۔اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے اخباری تراشے جمع کرادیے ہیں، اخباری تراشے الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں،الف لیلیٰ کی کہانیوں پر ہمارا وقت کیوں ضائع کیا؟ کیا کسی اخبار کی خبر پر کسی کو پھانسی ہو سکتی ہے؟ اخبار میں خبر آجائے کہ اللہ دتہ نے اللہ رکھا کو قتل کردیا ہے تو پھانسی دیدیں گے؟ اخبار ایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ پہلے آپ نے 4 فلیٹس کا کہا اب 1982ءسے لے کر اب تک کی دستاویزات جمع کرادیں،ان دستاویزات کا کوئی سر ہے نہ پیر، سارا مواد ریکارڈ پر ہے اس کو کمیشن تسلیم نہیں کرتا تو کہیں گے سارا ریکارڈ نہیں دیکھا ، اگر سارے ریکارڈ کا جائزہ لیا تو 6 ماہ میں بھی رپورٹ نہیں آئے گی، وہ دستاویزات دیں، جن سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے، اخباری خبر کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔

حامدخان نے کہا کہ جو دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں انہیں دیکھنے کے لیے 48گھنٹے کا وقت دیا جائے۔اکرم شیخ نے کہا کہ مریم نواز شریف کا اضافی بیان جمع کرارہاہوں۔ قطر کے شہزادے حماد بن جاسم کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی جائے جو صرف عدالت کے ملاحظے کے لیے ہے۔عدالت نے کہا کہ آپ جس شخصیت کا نام لے رہے ہیں تو کیا بطور گواہ بلوانے پر وہ پیش ہونگے؟ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ شیخ صاحب کیا آپ کو اس دستاویز کی حساسیت کا پتہ ہے ؟ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر ملکی سربراہ نے آپ کو تحفہ دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کے برعکس ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش تھی اتنا مواد آئے کہ 2،3روز میں جائزہ لیکر خود فیصلہ کریں ، ہمارا تاثردرست ثابت نہیں ہوا، بہت زیادہ دستاویزات آگئیں کہ اصل اور نقل کا پتہ ہی نہ چل سکے، اس طرح تو اس کیس کا فیصلہ 6ماہ بھی ممکن نہیں ہے۔