نائن الیون کے بعد 2015 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ نفرت پر مبنی جرائم میں 6.7 فیصد اضافہ ہوا اور واقعات کی تعداد 5479 سے 5850 تک تجاوز کرگئی۔ایف بی آئی

صدارتی انتخابات کے بعد مسلمانوں خصوصا خواتین کے نفرت انگیزواقعات میں اضافہ ہوا ہے-کئی ریاستوں میں مساجد اور اسلامی مراکزکودھمکیاں مل رہی ہیں:سی اے آئی آر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 نومبر 2016 17:03

نائن الیون کے بعد 2015 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد ..

واشنگٹن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 نومبر۔2016ء)امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں رونما ہونے والے نائن الیون کے واقعے کے بعد سے سال 2015 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کیے جانے والے واقعات کے اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ 2014 کے مقابلے میں 2015 میں نفرت پر مبنی جرائم میں 6.7 فیصد اضافہ ہوا اور واقعات کی تعداد 5479 سے 5850 تک تجاوز کرگئی۔

واضح رہے کہ یہ تعداد 2000 کے آغاز میں سامنے آنے والے واقعات سے کافی کم ہے تاہم ایف بی آئی کی یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب صدارتی انتخاب کے بعد امریکا میں قومیت اور مذہب کے نام پر حملوں کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔

(جاری ہے)

ایف بی آئی کی تازہ رپورٹ سال 2015 میں ہونے والے جرائم کا احاطہ کرتی ہے جس میں پیرس، سان برنارڈینو، کیلی فورنیا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سمیت ری پبلکن امیدوار ڈونلد ٹرمپ کی جانب سے امریکا میں مسلمانوں کی داخلے پر پابندی کے بیان شامل ہیں، تاہم یہ تمام واقعات سال کے آخری 2 ماہ میں پیش آئے ہیں۔

ناقدین کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان نے مسلم مخالف جذبات کو مزید ابھارا۔امریکا میں نفرت پھیلانے والے گروہوں پر نظر رکھنے والے ادارے سدرن پوورٹی لا سینٹر سے تعلق رکھنے والے مارک پوٹوک اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی عوامی شخصیات کے الفاظ کو تشدد میں ڈھلتے دیکھا ہے۔گذشتہ سال مسلم مخالف جذبات کے نتیجے میں سامنے آنے والے واقعات کی تعداد 257 تھی جبکہ اس سے قبل 2014 میں 154 ایسے واقعات سامنے آئے، یعنی ان واقعات کی شرح میں 67 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جبکہ سب سے زیادہ ایسے واقعات 2001 میں سامنے آئے تھے جب ان کی تعداد 481 تک پہنچ گئی تھی۔

امریکن اسلامک ریلشنز کونسل کے ترجمان ابراہیم ہوپر 2015 میں ہونے والے اس اضافے پر کسی حیرانی کا اظہار نہیں کرتے اور ان کے مطابق یہ سلسلہ شاید یوں ہی جاری رہے۔ابراہیم ہوپر کے مطابق 2015 کے آخر میں ہم نے مسلم مخالف واقعات میں تیزی دیکھی اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد بھی یہ واقعات بڑھتے رہے۔8 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے بعد سے امریکا بھر سے نسلی امتیاز اور مذہب مخالف واقعات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

یارک کاو¿نٹی، پنسلوانیا کے ووکیشنل اسکول میں دو طلبا نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نشان شیئر کیا جس پر کسی نے ’وائٹ پاور‘ کا نعرہ لگایا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔سلور سپرنگ، میری لینڈ میں بھی ہسپانوی زبان سکھانے والے کسی ادارے کے بینر کو پھاڑ کر اس پر ’ٹرمپ نیشن، وائٹس اونلی‘ کے الفاظ لکھ دیئے گئے۔سی اے آئی آر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کے بعد متعددریاستوں میں مسلمانوں پر حملے ہوئے ہیں اور خصوصا خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ کئی ریاستوں میں مساجد اور اسلامی مراکزنے بھی دھمکیاں ملنے کی شکایت کی ہے-مسلمانوں کے سول رائٹس کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے-کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ سان ڈیاگو اور سن جونز میں واقع کیمپس میں بھی دو باحجاب لڑکیوں پر حملے کی رپورٹس کی تصدیق کررہی ہے-انتظامیہ کے مطابق ایک حجاب پہنی خاتون کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ پر بات کرنے کے بعد 2 افراد نے اس کی گاڑی کی چابیاں چھین لیں جبکہ بعد ازاں اس کی گاڑی چرا کر لے گئے۔

اسی دوران شکاگو سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں سیاہ فام شہری کو سفید فام شہری کو مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جس میں لوگوں کی آوازیں ’تم نے ٹرمپ کو ووٹ دیا‘ بھی سنی جاسکتی ہیں۔دوسری جانب ٹرمپ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہیں ان کے حامیوں کی جانب سے اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر میرے کہنے سے یہ سب رک جاتا ہے تو میں کیمرہ میں دیکھ کر کہتا ہوں کہ اس کو روکا جائے۔

ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ان نفرت انگیز واقعات میں زیادہ تر واقعات وہ ہیں جنہوں نے کسی نسل یا قومیت کی مخالفت کے باعث جنم لیا، ان واقعات کے 4216 متاثرین میں سے 52 فیصد افراد سیاہ فام، 18.7 فیصد سفید فام جبکہ 9.3 افراد ہسپانوی یا لاطینی قومیت کے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، یہودیوں کے خلاف جرائم میں بھی 9 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔سول رائٹس کے لیے کام کرنے والے افراد نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ امریکی محکمہ انصاف کو تبدیل کرکے رکھ سکتی ہے، خصوصاً پالیسیوں کو اور نفرت پر مبنی جرائم کے حوالے سے بھی ان کی ترجیحات میں تبدیلی آسکتی ہے۔

اینٹی ڈی فیمیشن لیگ سے منسلک مائیکل لیبرمین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں نفرت پر مبنی جرائم کو قابو پانے کے لیے بےشمار کوششیں کی گئی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہب مخالف اور بالخصوص مسلم مخالف واقعات میں اس اضافے کی وجہ متاثرین کی جانب سے اسے رپورٹ کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان تک پہنچنے میں بہتری ہوسکتی ہے، کیونکہ 2015 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایف بی آئی کو نفرت پر مبنی جرائم کی معلومات بھیجنے میں 3 فیصد کمی آئی۔

اس سے قبل بھی امریکی خبر رساں ایجنسی کی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے 17 فیصد اداروں کی جانب سے گذشتہ 6 سالوں کے دوران نفرت پر مبنی جرائم کی کوئی ایک خبر بھی رپورٹ نہیں کی گئی۔سول رائٹس کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا کی جانب سے اقلیتوں کے خلاف تعصب پر مبنی واقعات پر غیراعلانیہ پابندی اور جانبداری کی وجہ سے ہرسال ہزاروں واقعات رپورٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں-