سرکاری وکلاء نے سپریم کورٹ میں طوطامینا کی کہانیاں سنائیں۔سراج الحق

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بینچوں کی بوکھلاہٹ کاثبوت ہے،کمیشن کے بغیرکوئی اورحل منظور نہیں، کمیشن کامطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا۔امیرجماعت اسلامی کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 15 نومبر 2016 18:26

سرکاری وکلاء نے سپریم کورٹ میں طوطامینا کی کہانیاں سنائیں۔سراج الحق

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔15نومبر2016ء) :امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ سرکاری وکلاء نے سپریم کورٹ میں طوطا مینا کی کہانیاں سنائی ہیں، پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بینچوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے،ہمیں کمیشن کے بغیر کوئی اور حل اس لئے منظور نہیں کہ کمیشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور ہے،اب اگر کچھ لوگ دائیں بائیں کا سوچ رہے ہیں تو ان کو اپنے سابقہ موقف کی طرف آنا چاہئے،احتساب ان کا بھی ہو جو حکومت میں ہیں اور ان کا بھی جو اپوزیشن کی صفوں میں ہیں، ہمیں صاف اور شفاف پاکستان چاہئے،اگر عدالتی نظام پر اعتماد بحال نہ ہوا تو مایوسی سے معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پاتا ہے،پیپلزپارٹی کا پانامہ پرتماشائی بننا مناسب نہیں،وہ بھی فعال کردار ادا کریں ورنہ قوم سمجھے گی کہ شاید پیپلزپارٹی احتساب نہیں چاہتی، ترک صدر کا پاکستان کا دورہ مفید اور مبارک ہے ان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کو فون کر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا مشورہ دیا ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے نائب امراء میاں محمد اسلم، اسد اللہ بھٹو، صوبہ پنجاب کے امیر میاں مقصود احمد اور آل پاکستان تاجر اتحاد کے صدر محمد کاشف چوہدری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پانامہ لیکس ایک انتہائی سنجیدہ کیس ہے، یہ کسی فرد یا تنظیم کا نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کے مفادات اور مستقبل اس سے وابستہ ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ یہ کیس نتیجہ خیز ہو اور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں کرپشن سے پاک پاکستان عوام کو ملے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت احتساب سے بچنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بینچوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کمیشن کے بغیر کوئی اور حل اس لئے منظور نہیں کہ کمیشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور ہے۔

ایسا کمیشن جو ٹرائل کرے، تحقیق کرے اور سپریم کورٹ اس کی نگرانی کرے جبکہ نیب سمیت تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کمیشن کے تابع ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اب عدالت میں جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں وہ غلط ہیں یا درست اس بات کا حساب کتاب کون کرے گا۔ عدالت میں کوئی اخبار کا تراشہ بھی پیش کر سکتا ہے۔ انتہائی بااعتماد افراد پر مشتمل ایک ٹیم کو باہر جا کر عدالت کو مطلوب دستاویزات اکٹھی کرنا چاہئیں۔

کوئی فرد انفرادی طور پر یہ نہیں کر سکتا بلکہ نیب کر سکتا ہے جس کے دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدے ہیں۔ اگر مجھے کوئی پانامہ سے ثبوت لانے کا کہے تو یہ مجھ پر فالتو بوجھ اور فرار کا راستہ ہو گا۔ نیب کمیشن کے سامنے شواہد پیش کرنے کا پابند ہے۔ اصغر خان کیس میں بھی سپریم کورٹ نے خود فیصلہ دیا تھا کہ متعلقہ ادارے تحقیقات کریں۔ آج بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے کمیشن تشکیل دے کر متعلقہ اداروں کے ذریعے تحقیقات کروائی جانی چاہئیں۔

سراج الحق نے کہا کہ ہم کرپشن اور کرپٹ نظام کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے ہر بچے کے ہاتھوں میں قرض کی ہتھکڑیاں ہیں۔ ہم نے کرپشن کے خلاف تحریک شروع کی ہے۔ اب یہ تحریک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں اب نہیں تو کبھی نہیں کا مرحلہ آ گیا ہے پوری قوم کو اس تحریک میں شامل ہونا چاہئے۔ ہم اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لٹیروں کو جیلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں جو جھنڈے بدلتے ہیں لیکن اپنا کردار نہیں بدلتے۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اربوں روپے کا قرضہ معاف کرایا ان کی فہرستیں بھی موجود ہیں کون ہے جو ان کا احتساب کرے۔ یہ طاقت ور مافیا ہے، ادارے بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ سپریم کورٹ اگر چھوٹے چھوٹے معاملات پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے تو قومی مفاد کے اس مسئلے پر کیوں نہیں لے سکتی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم اور انکے خاندان سے ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔

احتساب کا یہ عمل طے شدہ وقت میں ہو نہ کہ غیرمحدود مدت کے لئے۔ہم نے تجویز دی تھی کہ کمیشن بننے کے بعد 25 دن میں احتساب کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی خاص طور پر اعتزاز احسن سے چاہتا ہوں کہ وہ اچھے وکیل ہیں۔ انہوں نے ٹی او آرز تجویز کئے۔ ان کا تماشائی بننا مناسب نہیں۔ وہ بھی اس معاملے میں فعال کردار ادا کریں ورنہ قوم سمجھے گی کہ شاید پیپلزپارٹی احتساب نہیں چاہتی۔

ایک دوسرے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ ترکی کے صدر ایسے حالات میں پاکستان آ رہے ہیں جب بھارت کے ساتھ کشیدگی کا سامنا ہے۔ بارڈر پر حملہ کر کے ہمارے 7 جوانوں کو شہید کیا گیا ہے ہمیں دنیا بھر میں دوستوں کی ضرورت ہے۔ ترک صدر کا دورہ پاکستان مفید اور مبارک ہے میں 20 کروڑ عوام اور اپوزیشن کی طرف سے ترک صدر رجب طیب اردگان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

جب مجھے پتہ چلا کہ کچھ دوستوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے تو میں نے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو فون کر کے مشورہ دیا کہ وہ یہ بائیکاٹ ختم کر دیں اور اجلاس میں شرکت کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے سے امریکہ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے احترام میں انہوں نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو نہیں کی۔