پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بنچوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے،ہمیں کمیشن کے بغیر کوئی اور حل اس لئے منظور نہیں کہ کمیشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور ہے،اب اگر کچھ لوگ دائیں بائیں کا سوچ رہے ہیں تو ان کو اپنے سابقہ موقف کی طرف آنا چاہئے،احتساب ان کا بھی ہو جو حکومت میں ہیں اور ان کا بھی جو اپوزیشن کی صفوں میں ہیں، ہمیں صاف اور شفاف پاکستان چاہئے،اگر عدالتی نظام پر اعتماد بحال نہ ہوا تو مایوسی سے معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پائے گا،پیپلزپارٹی کا پانامہ پرتماشائی بننا مناسب نہیں

امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹرسراج الحق کا پر یس کا نفر نس سے خطاب

منگل 15 نومبر 2016 22:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 نومبر2016ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بنچوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے،ہمیں کمیشن کے بغیر کوئی اور حل اس لئے منظور نہیں کہ کمیشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور ہے،اب اگر کچھ لوگ دائیں بائیں کا سوچ رہے ہیں تو ان کو اپنے سابقہ موقف کی طرف آنا چاہئے،احتساب ان کا بھی ہو جو حکومت میں ہیں اور ان کا بھی جو اپوزیشن کی صفوں میں ہیں، ہمیں صاف اور شفاف پاکستان چاہئے،اگر عدالتی نظام پر اعتماد بحال نہ ہوا تو مایوسی سے معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پائے گا،پیپلزپارٹی کا پانامہ پرتماشائی بننا مناسب نہیں،وہ بھی فعال کردار ادا کریں ورنہ قوم سمجھے گی کہ شاید پیپلزپارٹی احتساب نہیں چاہتی، ترک صدر کی پاکستان آمد مفید اور مبارک ہے ان کو خوش آمدید کہتا ہوںتحریک انصاف کو فون کر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا مشورہ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو نائب امراء میاں محمد اسلم، اسد اللہ بھٹو، صوبہ پنجاب کے امیر میاں مقصود احمد اور آل پاکستان تاجر اتحاد کے صدر محمد کاشف چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے احترام میں وہاں پر میڈیا سے گفتگو نہیں کی، سرکاری وکلاء نے سپریم کورٹ میں طوطا مینا کی کہانیاں سنائی ہیں۔

یہ ایک انتہائی سنجیدہ کیس ہے۔ یہ کسی فرد یا تنظیم کا نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کے مفادات اور مستقبل اس سے وابستہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کیس نتیجہ خیز ہو اور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں کرپشن سے پاک پاکستان عوام کو ملے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے 3 بار اپنے آپ اور خاندان کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے آپ کو صاف ثابت کرنے کے لئے اور احتساب کے لئے خود نظام اور کمیشن بناتے، اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تسلیم کرتے اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لئے تجاویز دیتے لیکن انہوں نے اپنے اور قوم کے 7 مہینے ضائع کر دیئے حکومت احتساب سے بچنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کی تبدیلی حکومتی بینچوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کمیشن کے بغیر کوئی اور حل اس لئے منظور نہیں کہ کمیشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور ہے۔ ایسا کمیشن جو ٹرائل کرے، تحقیق کرے اور سپریم کورٹ اس کی نگرانی کرے جبکہ نیب سمیت تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کمیشن کے تابع ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اب عدالت میں جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں وہ غلط ہیں یا درست اس بات کا حساب کتاب کون کرے گا۔ عدالت میں کوئی اخبار کا تراشہ بھی پیش کر سکتا ہے۔ انتہائی بااعتماد افراد پر مشتمل ایک ٹیم کو باہر جا کر عدالت کو مطلوب دستاویزات اکٹھی کرنا چاہئیں۔ کوئی فرد انفرادی طور پر یہ نہیں کر سکتا بلکہ نیب کر سکتا ہے جس کے دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدے ہیں۔

اگر مجھے کوئی پانامہ سے ثبوت لانے کا کہے تو یہ مجھ پر فالتو بوجھ اور فرار کا راستہ ہو گا۔ نیب کمیشن کے سامنے شواہد پیش کرنے کا پابند ہے۔ اصغر خان کیس میں بھی سپریم کورٹ نے خود فیصلہ دیا تھا کہ متعلقہ ادارے تحقیقات کریں۔ آج بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے کمیشن تشکیل دے کر متعلقہ اداروں کے ذریعے تحقیقات کروائی جانی چاہئیں۔ سراج الحق نے کہا کہ ہم کرپشن اور کرپٹ نظام کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے ہر بچے کے ہاتھوں میں قرض کی ہتھکڑیاں ہیں۔

ہم نے کرپشن کے خلاف تحریک شروع کی ہے۔ اب یہ تحریک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں اب نہیں تو کبھی نہیں کا مرحلہ آ گیا ہے پوری قوم کو اس تحریک میں شامل ہونا چاہئے۔ احتساب ان کا بھی ہو جو حکومت میں ہیں اور ان کا بھی جو اپوزیشن کی صفوں میں ہیں۔ ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے جنہوں نے پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں لوٹ کھسوٹ کی۔

ہمیں صاف اور شفاف پاکستان چاہئے۔ ملک اس وقت 70 ارب ڈالر کا مقروض ہے جبکہ 345 ارب ڈالر پاکستانیوں کے بیرون ملک پڑے ہیں۔ یہ غریب عوام کا پیسہ ہے جسے واپس لایا جانا چاہئے۔ ہم اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لٹیروں کو جیلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں جو جھنڈے بدلتے ہیں لیکن اپنا کردار نہیں بدلتے۔ پاکستان کی بربادی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اربوں روپے کا قرضہ معاف کرایا ان کی فہرستیں بھی موجود ہیں کون ہے جو ان کا احتساب کرے۔

یہ طاقت ور مافیا ہے، ادارے بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ سپریم کورٹ اگر چھوٹے چھوٹے معاملات پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے تو قومی مفاد کے اس مسئلے پر کیوں نہیں لے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ججز نے آج جو ریمارکس دیئے ہیں وہ حوصلہ افزاء ہیں۔ یہ عدالتی نظام پر اعتماد بحال کرنے کا وقت ہے۔ اگر عدالتی نظام پر اعتماد بحال نہ ہوا تو مایوسی سے معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پاتا ہے۔

پوری قوم کا مینڈیٹ عدالت کے ساتھ ہے۔ مبہم انداز میں آگے بڑھنے کی بجائے قوم کو خوشخبری دینے کی ضرورت ہے کہ ہم اس کیس کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ سکینڈل کے حوالے سے پوری اپوزیشن کا مطالبہ کمیشن کا تھا۔ ٹی او آرز تجویز کئے گئے اب اگر کچھ لوگ دائیں بائیں کا سوچ رہے ہیں تو ان کو اپنے سابقہ موقف کی طرف آنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سرکاری وکلاء کے موقف میں مسلسل تضادات ہیں۔

یہ آئین کی آرٹیکل دفعہ 62,63 کا ارتکاب ہے۔ قوم کو گمراہ کرنے اور عدالت کے سامنے غلط حقائق رکھنے کا نوٹس لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف مہم شروع کی ہے۔ ہم نے ٹرین مارچ کئے، جلسے کئے، ریلیاں کیں، سیمینار کئے۔ 4 بل قومی اسمبلی میں کرپشن کے حوالے سے جمع کروائے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نہیں چاہتے کہ کرپشن کے خلاف ہماری یہ مہم غل غپاڑے اور شور شرابے کی نذر ہو جائے۔

ساری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ امید ہے سپریم کورٹ قوم کو انصاف دے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم اور انکے خاندان سے ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔ احتساب کا یہ عمل طے شدہ وقت میں ہو نہ کہ غیرمحدود مدت کے لئے۔

ہم نے تجویز دی تھی کہ کمیشن بننے کے بعد 25 دن میں احتساب کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی خاص طور پر اعتزاز احسن سے چاہتا ہوں کہ وہ اچھے وکیل ہیں۔ انہوں نے ٹی او آرز تجویز کئے۔ ان کا تماشائی بننا مناسب نہیں۔ وہ بھی اس معاملے میں فعال کردار ادا کریں ورنہ قوم سمجھے گی کہ شاید پیپلزپارٹی احتساب نہیں چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت فرد کا احتساب کر سکتی ہے لیکن جماعتوں کا احتساب عوام ہی کریں گے۔ ایک سوال پر سراج الحق نے کہا کہ ترکی کے صدر ایسے حالات میں پاکستان آ رہے ہیں جب بھارت کے ساتھ کشیدگی کا سامنا ہے۔ بارڈر پر حملہ کر کے ہمارے 7 جوانوں کو شہید کیا گیا ہے ہمیں دنیا بھر میں دوستوں کی ضرورت ہے۔ ترک صدر کا پاکستان مفید اور مبارک ہے میں 20 کروڑ عوام اور اپوزیشن کی طرف سے ترک صدر رجب طیب اردگان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

جب مجھے پتہ چلا کہ کچھ دوستوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے تو میں نے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو فون کر کے مشورہ دیا کہ وہ یہ بائیکاٹ ختم کر دیں اور اجلاس میں شرکت کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے سے امریکہ اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔