قومی زراعت اور زراعت سے وابستہ صنعتوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کو طویل المدتی پالیسیاں اور فوکسڈ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی ،انجینئر سعید شیخ

بدھ 16 نومبر 2016 20:02

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 نومبر2016ء)قومی زراعت اور زراعت سے وابستہ صنعتوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کو طویل المدتی پالیسیاں اور فوکسڈ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی ۔یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر انجینئر محمد سعید شیخ نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ اینالسٹ سماویہ بتول اور ریسرچ فیلو ڈاکٹر فہد سعید سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی ۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں اور بالخصوص برآمد کنندگان کو اپنے کاروبار سے متعلقہ مارکیٹ کی صورتحال اور آنے والے حالات سے بھی باخبر رہنا پڑتا ہے ۔تاہم جب تک انہیں اپنی صنعتوں کیلئے خام مال آسانی سے ملتا رہتا ہے وہ خاموش رہتے ہیں۔ زیادہ تر صنعتکار اس وقت آواز اٹھاتے ہیں جب انہیں خام مال کی حصول یا اس کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں نیاب۔ 78 کی کپاس کی ورائٹی کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات 14 ملین گانٹھوں تک پہنچ گئی تھی مگر اس کے بعد مختلف بیماریوں موسمی تبدیلیوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اس میں بتدریج کمی ہوتی گئی جس کی وجہ سے اب ہماری پیداوار 10 ملین بیل پر آگئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے مقامی برآمد کنندگان اپنے غیر ملکی خریداروں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے لمبے ریشے والی کپاس دوسرے ملکوں سے درآمدبھی کرتے ہیں کیونکہ ہماری کپاس کا ریشہ چھوٹا ہوتا ہے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی مندے کی وجہ سے تمام ملکوں کی برآمدات کم ہوئی ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں گزشتہ2 دہائیوںسے جاری امن و امان کی خراب صورت حال ،توانائی کے بحران اور پالیسیوں میں عدم استحکام کی وجہ سے صرف فیصل آباد کے 20 سے زائدبڑے Export Orientedادارے بند ہو چکے ہیں جنکی وجہ سے جہاں بڑے پیمانے پر مزدور بے روزگار ہوئے وہاں صرف اس کی وجہ سے زر مبادلہ میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی بھی ریکارڈ کی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوارمیں کمی کی وجہ یقینا گزشتہ سیلاب بھی تھے۔ ان کی وجہ سے کئی کسانوں کی ساری جمع پونجی ہی ختم ہو گئی حکومت نے ان کی بحالی کیلئے اقدامات کئے مگر وہ محض اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد اس حوالہ سے خوش قسمت علاقہ ہے کہ یہاں زرعی یونیورسٹی اور کئی دوسرے اہم زرعی تحقیقی ادارے موجودہے ۔

جہاں پر کلائمیٹ چینج پر بھی کام ہو رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جامعہ کے ماہرین ایسی فصلوں کی تیاری میں مصروف ہیں جو شدید گرمی میں بھی اچھی پیداوار دے سکتی ہیں ۔ صدر انجینئر محمد سعید شیخ نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد ہماری غیر ملکی ترسیلات میں زبردست کمی ہوئی ہے ۔ جس سے درآمدات اور برآمدات کا خسارہ مزید بڑھ گیا ہے ۔ اس پر قابو پانے کاواحد اور فوری طور پر دستیاب ذریعہ صرف اور صرف ٹیکسٹائل سیکٹر ہے لہٰذا حکومت کی پوری توجہ اس سیکٹر کی فوری بحالی پر ہونی چاہیئے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پہلے مرحلے میں ٹیکسٹائل کے بند مگربحالی کے قابل اداروں پر توجہ دینی چاہیئے ۔ صرف فیصل آباد کے ان یونٹوں کی بحالی سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کااضافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے ۔ اس طرح بڑے پیمانے پر لوگوںکو روزگار بھی مہیا کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پہلی فرصت میں ٹیکسٹائل کی وزارت کیلئے مکمل وزیر مقرر کرنا چاہیئے ۔

اسی طرح بیمار صنعتی یونٹوں کی بحالی پر بھی فوری تو جہ دینے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاروں کو براہ راست آزادانہ طو رپر صنعتیں لگانے کی بجائے حکومت کو مشترکہ منصوبے شرو ع کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ نہ صرف ہمارے چینی بھائی منافع کمائیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ہماری صنعتوں میں بھی ویلیو ایڈیشن کے عمل کو شروع کیا جا سکے ۔ انہوں نے ٹیکسٹائل پیکج کے فوری اعلان کا بھی مطالبہ کیا ۔اس موقع پر فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے نائب صدر انجینئر احمد حسن بھی موجود تھے ۔