نئے ٹیکسز سے تعمیراتی صنعت کا مستقبل بھی خطرے میں، کئی اسکیموں کی بکنگ منسوخ ہو گئی

ْپاکستان رئیل اسٹیٹ انڈسٹری فورم کے صدر شعبان الٰہی، غضنفر محبوب اور دیگر کی پریس کانفرنس

بدھ 16 نومبر 2016 21:30

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 نومبر2016ء) پاکستان رئیل اسٹیٹ انڈسٹری فورم (پریف) نے کہا ہے کہ جائیداد کی خریدپر ایف بی آر کے نئے ٹیکسوں اور ان کی شرح بڑھانے سے تعمیراتی صنعت کا مستقبل بھی خطرے میںپڑ گیا ہے۔ بہت سی ہاؤسنگ اسکیموں میں بکنگ منسوخ ہو گئی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ 50دیگر شعبے بشمول سیمنٹ، اسٹیل، پینٹس، پائپ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔

سرمایہ متحدہ عرب امارات منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پریف نے مطالبہ کیا کہ رضاکارانہ فکسڈ ٹیکس کو دو فیصد کیا جائے۔ ایف بی آرویلیوایشن میں ہر سال صرف 10فیصد تک اضافہ کرے، ودہولڈنگ ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس سمیت دیگر تمام ٹیکسز کی شرح میں کمی کی جائے، ویلیوایشن میں درپیش خامیوں اور مسائل کو فوری دورکیا جائے۔

(جاری ہے)

اگر مطالبات فوری مان لیے گئے تو رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں 500سے 600فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ مطالبات بدھ کے روز پاکستان رئیل اسٹیٹ انڈسٹری فورم (پریف) کے صدر شعبان الہیٰ، جنرل سیکریٹری غضنفر محبوب اور دیگر عہدیداران نے بدھ کوکراچی پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں معاشی سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔ نئے ٹیکس قوانین سے حکومتی آمدنی میں وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے وہ بھی جون 2016سے قبل ہونے والے خریدوفروخت کی وجہ سے ہو گا لیکن اگلے مہینوں میں اس میں بھی کمی آجائے گی۔

رہائشی اسکیموں میں بکنگ منسوخ ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے میں بھی بحرانی کیفیت ہے اور کچی آبادیاںبڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی رہائشی اسکیمیں بھی نہیں آئیں گی جبکہ اس سے وابستہ شعبے بشمول سیمنٹ، اسٹیل ، پینٹس اور پائپ وغیرہ بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری بھی بہت کم ہو چکی ہے۔

صورت حال کی وجہ سے سرمایہ متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میںجانا شروع ہو گیاہے۔ شعبان الہیٰ اور غضنفر محبوب نے کہا کہ گزشتہ کئی عشروں سے ڈی سی ریٹ پر جائیداد کی خریدوفروخت چل رہی تھی اور اس دوران اس ریٹ کو مناسب شرح سے بڑھایا نہیں گیا۔ اس کی وجہ سے غیردستاویزی پیسہ جمع ہو گیا جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی نے اپنا ڈیکلئیرڈ پیسہ بھی اس شعبے میں لگایا تو اب وہ ان ڈاکومینٹڈ ہو گیا۔

ایسی صورت میں چھوٹے اور متوسط سرمایہ کاروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد قانون پر سو فیصد عمل کرنے کے باوجود مشکلات میں گھر گئی۔ اب حکومت نے اچانک راتوں رات قانون بنا کر سارے پیسے کو ان ڈاکومینٹڈ قرار دے دیا جس میں ماضی کے طریقہ کار کی وجہ سے لوگ مشکل میں آگئے۔ انہوںنے کہا کہ 2012میں اسٹاک ایکس چینج میں بھی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جس میں حکومت نے انہیں رضاکارانہ اسکیم دی تھی اور چار ماہ کی سرمایہ کاری لازمی قرار دے دی تھی جس کے بعد ذرائع آمدن نہیں پوچھے گئے۔

اسی اسکیم کی بدولت آج حکومت اسٹاک مارکیٹ کی بہتری اور ایشیا میں دوسرے نمبر پر آنے کا کریڈٹ بھی عالمی سطح پر لے رہی ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے بھی ایسی رضاکارانہ اسکیم دی جائے۔عہدیداران نے مطالبہ کیا کہ موجودہ جائیداد مالکان سے ڈی سی ویلیو اور ایف بی آر ویلیو کے درمیانی فرق کی رقم کا صرف ایک فیصد فکسڈ ٹیکس لیا جائے۔ اس میں بھی تین سال یا اس سے زائد عرصے سے جائیداد رکھنے والوں کو اس سے مستثنیٰ کیا جائے۔

اسی طرح نئے خریداروں سے اس فرق کی رقم کا دو فیصد فکسڈ ٹیکس لیا جائے۔ اس صورت میں ہولڈنگ کا عرصہ چار ماہ تک لازمی قرار دیا جائے۔ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹایم لمٹ دو سال کی مدت کو لازمی قرار دیا جائے۔ پریف نے مطالبہ کیا کہ رضاکارانہ فکسڈ ٹیکس کو دو فیصد کیا جائے۔ ایف بی آرویلیوایشن میں ہر سال صرف 10فیصد تک اضافہ کرے، ودہولڈنگ ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس سمیت دیگر تمام ٹیکسز کی شرح میں کمی کی جائے، ویلیوایشن میں درپیش خامیوں اور مسائل کو فوری دورکیا جائے۔

ایسا کرنے سے رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ٹیکس وصول کی شرح 500سے 600فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھے گی۔ مقامی اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری بڑھے گی۔ تعمیراتی اور اس سے وابستہ دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری بڑھے گی۔ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ رہائشی اسکیمیں بنتی رہیں گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان تجاویز پر فوری عمل کیا جائے۔ شعبان الٰہی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائلر بنیں اور حکومت آمدنی میں اضافہ ہو۔ وہ خریداروں کو خود فائلر بننے کے لیے آمادہ کریں گے لیکن اس کے لیے لازمی ہے کہ ایف بی آر اس عمل کو آسان اور موزوں بنائے۔