سپریم کورٹ، فیڈرل سروسز ٹربیونل کے چیئرمین و ممبران کی تعیناتی کیس کی سماعت،وفاق سے آج جواب طلب

جمعرات 17 نومبر 2016 19:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 نومبر2016ء) سپریم کورٹ میں فیڈرل سروسز ٹربیونل کے چیئرمین و ممبران کی تعیناتی کے حوالے سے کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ‘ جسٹس امیرہانی مسلم‘ جسٹس اعجاز الاحسن‘ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے کی عدالت نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کے بغیر فیڈرل ٹربیونل کے چیئرمین کی تعیناتی کے حوالے سے وفاق سے آج( جمعہ کو ) جواب طلب کرلیا ہے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ مین ججز کیلئے عمر کی حد مقرر ہے لیکن فیڈرل سروس ٹربیونل میں عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔

70 سے 80 سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل کمیشن بنایا گیا ہے جنکو ہاتھ سے پکڑ کر لایا جاتا ہے ٹربیونل میں حکومت مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کیلئے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ باداشاہت ہے کہ ٹربیونل کے ممبران کام بھی نہیں کرتے اور چیئرمین کو چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر بھی تعینات کیا جارہا ہے۔ چیئرمین فیڈرل ٹربیونل سروسز کیلئے کوئی عمر کی ہد نہیں ہے۔

جو افسران اپن اننگز کھیل چکے ہوتے ہیں ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد مصروف رہنے کیلئے نوکریاں کرتے ہیں لیکن کام میںکوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ فیڈرل سروسز ٹربیونل کو آزاد ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ آج تک اس کے رولز نہیں بنائے گئے اور نہ عمر کا تعین کیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو فوری رولز بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چیئرمین اور ممبران کی قابلیت اور عمر کی کوئی حد تو ہوگی کہ ان کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا بتایا گیا ہے ۔

انہوں نے اکرم شیخ سے کہا کہ اگر آپ کے موکل کو ہٹایا گیا ہے جو بھی اس فیصلے سے متاثر ہوگا ان سب کو ہٹایا جائے گا۔ اگر ان کی تعیناتی چیف جسٹس کی مشاورت سے کی جاتی تو ان کو ہٹایا نہ ہٹایا جاتا اس حوالے سے اٹارنی جنرل موجود ہیں آپ ریکارڈ دیکھ لیں کہ حکومت نے اس حوالے سے مشاورت کی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر چیئرمین اور ممبران تعیناتی کے بعد کام نہیں کرتے تو ان کو تعینات کرنے کا مقصد تو فیل ہوجاتا ہے۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ فیڈرل سروس ٹربیونل کے ممبران اور چیئرمین کی تعیناتی من پسند لوگوں کو نوازنے کیلئے کی جاتی ہے۔ چور دروازہ رکھا ہوا ہے سٹینو گرافر سے مل کر کام کروایا جاسکتا ہے۔ کوئی کمیٹی اور کمیشن نہیں جو ان کو چیک کرے ۔ دو سالوں میں صرف دو فیصلے کئے گئے ہیں صرف مراعات حاصل کی جارہی ہیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو کہا کہ آج ہی اس کو دیکھتے ہیں۔

ہائی کورٹ کیلئے تو عمر کی حد مقرر ہے اس حوالے سے وفاق سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔ شیخ اکرم نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کو چیف جسٹس کی مشاورت سے تعینات کیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس زبانی کوئی حکم نہیں دے سکتا بطور چیف جسٹس تحریری آرڈر دے سکتا ہوں ۔ عدالت نے وفاق سے اس حوالے سے آج جواب طلب کرلیا۔ (عابد شاہ/طارق ورک)

متعلقہ عنوان :