آئین میں موجود ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ، موجودہ آئین کو تبدیل کرنا آسان نہیں،اس کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہئے ، شراب پر پابندی بل کی مخالفت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنے ایمان کے بار ے میں د وبارہ سوچ لیں

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی کونسل کے 3 روزہ اجلاس کے اختتام پر میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 17 نومبر 2016 20:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2016ء) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاہے کہ جب تک یہ آئین موجود ہے اسلامی نظریاتی کونسل کو کوئی ختم نہیں کرسکتا اور موجودہ آئین کو تبدیل کرنا آسان نہیںآئین تبدیل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہئے ،سینٹ اور قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کے بل کی مخالفت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کو اپنے ایمان کے بار ے میں د وبارہ سوچ لینا چاہیے ۔

وہ جمعرات کواسلام آباد میں کونسل کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے۔ اجلاس میں حقوق اطفال بل کا جائزہ لیا گیااورخواتین کے تحفظ سے متعلق ماڈل بل پر بھی غور کیا گیا ،محمد خان شیرانی نے کہا کہ کونسل نے شراب کے حوالے سے جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے پر غور کیااوراس فیصلے کوسراہا۔

(جاری ہے)

عدالت نے یہ فیصلہ دیکر خدا پرستی کی تر جمانی کی۔

اگر کوئی وکیل فیصلہ چیلنج کریگا تواسے اپنے ایمان کے بارے پر کسی خدا پرست سے پوچھنا چاہیے۔محمد خان شیرانی نے کہا کہ سینیٹ اورقومی اسمبلی میں اقلیتی ممبران نے شادی بیاہ میں شراب کی اجازت کو ختم کرانے کے لئے ترمیمی بل پیش کئے تو مسلمان ارکان نے بل کی مخالفت کی۔انہوں نے کہا کہ جن ممبران نے ان بلوں کی مخالفت کی انہیں اپنے ایمان کو دوبارہ سوچنا چاہیے۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ شراب مسلمانوں کی ضرورت ہے یا غیر مسلموں کی ۔اجلاس میں حقوق اطفال بل کا جائزہ لیا گیااورخواتین کے تحفظ سے متعلق ماڈل بل پر بھی غور کیا گیا،محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ دوران عدت مسائل جو پیدا ہوتے ہیں کونسل عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے پمفلٹس چھاپے گی۔ حقوق مرداں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ انہیں خط موصول ہوا ہیتاہم کونسل کے اجلاس میں خط پیش نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحفظ حقوق مرداں سے متعلق خط لازمی طور پر پیش ہونا چاہیے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عملی جنگی میدان میں بچوں کو گھسیٹنے کی سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو کوئی اجازت نہیں۔(ع ع)

متعلقہ عنوان :