عراق کے شہر موصل میں داعش نے 300سابق پولیس اہلکاروں کو پھانسی دے کر قتل کردیا

شمالی عراقی شہر تلعفر کے ہوائی اڈے کو داعش کے قبضے سے چھڑا لیا گیا،موصل میں خراب موسم کی وجہ سے عراقی افواج کی پیش قدمی رک گئی،بادلوں کی وجہ سے فضائی مدد فراہم کرنے والے ڈرونز اور طیاروں کی حدنگاہ محدود ہے، جن علاقوں میں فوج موجود ہے ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا،عراقی فوجی جنرل

جمعرات 17 نومبر 2016 22:16

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2016ء) عراق کے شہر موصل کے جنوب میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے 300سابق پولیس اہلکاروں کو پھانسی دے کر قتل کردیا جبکہ شمالی عراقی شہر تلعفر کے ہوائی اڈے پر اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ختم کرا دیا گیا،دوسری جانب موصل سے دولت اسلامیہ کا قبضہ چھڑوانے کے لیے عراقی فوجوں کی جانب سے ایک ماہ کے پہلے شروع کی گئی کارروائی میں خراب موسم کے باعث پیش قدمی روک دی گئی ۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق عراق کے شہر موصل کے جنوب میںداعش نے 300سابق پولیس اہلکاروں کو پھانسی دے دی ۔ہیومن رائٹس واچ(ایچ آر ڈبلیو) نے بتایا ہے کہ عراقی سیکورٹی فورسز نے شمالی شہر موصل کے قریب ایک ایک اجتماعی قبر دریافت کی ہے جس میں 300سابق پولیس افسران کی باقیات دفن تھیں۔

(جاری ہے)

بین الاقومی انسانی حقوق کی تنظیم نے اکتوبر کے آخر میں پولیس افسران کے قتل عام کے ایک گواہ کا حوالہ دیا ہے ۔

عینی شاہد ایک مزدور کا کہنا تھا کہ اس نے 28اکتوبر کو داعش جنگجوئوں کو دکھا تھا جو 100سے 125کے قریب افرادکو ٹرکوں پر لائے تھے جس میں بعض افراد سابق پولیس افسر تھے ۔ اس نے پھر گولیوں اور چیخوں کی آوازیں سنی ۔اگلے دن اسی جگہ پر ایک ایساہی واقعہ پیش آیا اور 130سے 145افراد کو پھانسی دیدی گئی ۔رواں ہفتے ایچ آر ڈبلیو کے ایک محقق نے سائٹ کے دورے کے دوران اجتماعی قبر کا مشاہدہ کیا۔

واضح رہے کہ عراق کے شہرموصل میں عراقی سیکورٹی فورسز کا بڑے پیمانے پر داعش کیخلاف آپریشن جاری ہے ۔شمالی عراقی شہر تلعفر کے ہوائی اڈے پر اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ختم کرا دیا گیا ۔ عراقی سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تلعفر میں یہ کارروائی حکومت کی حمایت یافتہ ایک شیعہ جنگجو تنظیم نے کی۔ کہا گیا ہے کہ یہ ہوائی اڈہ داعش کو کمک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اس راستے کے بند ہو جانے سے اب موصل میں لڑنے والے اس تنظیم کے دہشت گردوں کو مزید کوئی عسکری ساز و سامان نہیں پہنچ سکے گا۔

عراقی فوج اور اس کے حمایت یافتہ دستے گزشتہ ایک ماہ کے دوران پیش قدمی کرتے ہوئے موصل کے قریب تر پہنچتے جا رہے ہیں۔دوسری جانب عراق کے شہر موصل سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا قبضہ چھڑوانے کے لیے عراقی فوجوں کی جانب سے ایک ماہ کے پہلے شروع کی گئی کارروائی میں خراب موسم کے باعث پیش قدمی روک دی گئی ہے۔عراقی فوج کے ایک جنرل کا کہنا ہے بادلوں کی وجہ سے فضائی مدد فراہم کرنے والے ڈرونز اور طیاروں کی حدنگاہ محدود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فوج موجود ہے ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔دوسری جانب دولت اسلامیہ شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور بڑی تعداد میں نشانہ بازوں اور خودکش بمباروں کا استعمال کر رہی ہے۔خیال رہے کہ جون 2014 میں دولتِ اسلامیہ نے موصل پر اپنا قبضہ قائم کر لیا تھا اور عراق میں یہ دولت اسلامیہ کا آخری بڑا گڑھ ہے۔دولت اسلامیہ کے خلاف اس کارروائی میں تقریبا 50 ہزار عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکار، سپاہی، پولیس، کرد پیشمرگا، سنی عرب قبائلی اور شیعہ ملیشیا شریک ہیں۔

اس آپریشن کے ابتدائی دو ہفتوں میں عراقی افواج نے سخت مزاحمت کے باوجود مشرق اور جنوب مشرق کی جانب سے تیزی سے قصبوں اور دیہاتوں پر اپنا قبضہ قائم کیا تھا۔یکم نومبر کو سپیشل فورسز اور فوجی یونٹس شہر کے مشرقی جانب دو اہم مقامات سے داخل ہونے اور اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔اطلاعات کے مطابق شدت پسند عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔

اور فوجیں شمال اور جنوب کی جانب سے تاحال شہر میں داخل نہیں ہو سکیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ عراقی فوجوں کی جانب سے چھڑوائے گئے علاقوں میں شہری املاک جیسے کہ پانی اور بجلی کی سہولیات، سکول اور ہسپتالوں اور طبی سہولیات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔اس کارروائی سے تقریبا 59 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں جن میں 26 ہزار کے قریب بچے ہیں جبکہ جنگ زدہ علاقے میں موجود تقریبا دس لاکھ کے قریب افراد کو خطرات کا سامنا ہے۔