عالمی سطح پر 80کروڑ لوگوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی حاصل نہیں ہے ، ا مریکی قونصل جنرل یوری آر فیڈکیف

جمعرات 17 نومبر 2016 22:35

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 نومبر2016ء) ا مریکی قونصل جنرل یوری آر فیڈکیف نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر 80کروڑ لوگوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی حاصل نہیں ہے جس کا سب سے بڑا ہدف خواتین اور بچے بن رہے ہیں جوغذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سے مختلف کمزوریوں کا شکار ہوکر صحت مند زندگی نہیں گزار پا رہے عالمی کانفرنس کے انعقاد کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ صدی کے دوران دنیا کی آبادی 9ارب ہوجائے گی جس کے اثرات تمام ممالک اور قوموں پر پڑیں گے لہٰذا بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی غذائی ضروریات کوپورا کرنے کیلئے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے ماہرین اور پالیسی ساز اداروں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔

پاک امریکہ مرکز اعلیٰ تعلیم برائے خوراک وزراعت کے ذریعے زرعی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس امریکہ کی شراکت سے پاکستانی نوجوانوں کو امریکی جامعات میں پیشہ وارانہ مواقعوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زرعی ترقی کو پائیدار بنیادفراہم کرنے میں اپنا کردار اداکریں گے تاکہ اس شعبہ میں اُٹھنے والے سوالات کا موثر جواب تلاش کیا جا سکے ، تمام ممالک اور قوموں کو بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ اس طرح تھامنا ہوگا کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ اور دیہاتوں میں معاشی ترقی کے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں۔

(جاری ہے)

آن لائن کے مطابق زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پاک امریکہ مرکز اعلیٰ تعلیم برائے خوراک و زراعت کی نئی بلڈنگ کا افتتاح کرتے ہوئے امریکی قونصل جنرل نے کہا کہ پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے بڑے آڈیٹوریم اور درجنوں تحقیقاتی لیبارٹریوں وکمروں پر مشتمل نئی بلڈنگ کے ذریعے مرکز اعلیٰ تعلیم کی سرگرمیوں میں مزید بہتری اور جامعیت آئے گی۔ قبل ازیں نیو سینٹ ہال میں پاکستان میں پائیدار زراعت پر منعقد ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس کے مہمان خصوصی کے طو رپر خطاب کرتے ہوئے امریکی قونصل جنرل نے کہاکہ پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف مراحل میں خوراک کی ضیاع کو بھی روکنا ہوگا تاکہ اس کی معاشرے کے تمام طبقات تک رسائی کو ممکن بنایا جا سکے ۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کو تمام حوالوں سے غذائی استحکام کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے مواقعوں کو بڑھاتے ہوئے ہمیں دیہی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے زرعی زمین ‘ پانی‘ توانائی اور خوراک کے حوالے سے اپنے علم و مشاہدے میں اضافہ کرنا ہوگا۔ امریکی قونصل جنرل نے کہا کہ ہرچند ترقی پذیر ممالک کی 43فیصد افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے جو مردوں کے مقابلہ میں گھنٹوں زیادہ کام کرتی ہیں تاہم زرعی توسیع کی سروسزاور زرعی قرضوں تک ان کی محدود رسائی خواتین کو مزید بااختیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تغیرات کے تناظر میں ہمیں ماضی کے مقابلہ میں بڑے چیلنجز درپیش ہیں لہٰذا زمین و آبی وسائل کے منصفانہ استعمال کو یقینی بناتے ہوئے زیادہ پیداوار کے ساتھ ساتھ کھیت سے صارف کی میز تک پہنچنے کے دوران ضائع ہونے والی خوراک کی شرح کو بھی گرفت میں لانا ہوگا۔ امریکی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ ہمیں نت نئی معلومات کے تبادلے اور باہمی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے اُبھرتے ہوئے چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نبردآزما ہونے کی راہ ہموار کرنا ہوگی جس سے زرعی شعبہ میں مزید تحقیق‘ سرمایہ کاری میں اضافہ کے ذریعے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

۔ انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جس طرح وہ بزنس کمیونٹی‘ انڈسٹری‘ کسان نمائندوں اور حکومتی اداروں کو ساتھ لیکر باہمی مشاورت سے زرعی شعبہ میں کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ لائق تحسین ہے ۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر و ترقی پسند کاشتکار سید فخر امام نے کہاکہ گزشتہ 69برسوں کے دوران زرعی شعبہ کی ترقی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تاہم موجودہ حکومت کی طرف سے کلائمیٹ زونز کے ازسرنوتعین کے ساتھ ساتھ زرعی پالیسی کی تیاری میں تمام متعلقین کی مشاورت و رہنمائی سے ہونے والی پیش رفت سے وہ توقع رکھتے ہیں کہ اس سے پورے زرعی شعبے کو ایک نئی توانائی ملے گی۔

انہوں نے کہاکہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ہر سال 18ارب ڈالر مالیت کا 30ملین ایکڑ پانی سمندر کی نذر کر رہی ہے جبکہ فصلوں کی کھلی آبپاشی اور پانی کے غیرمنصفانہ استعمال سے اس قیمتی قدرتی ذخیرے کو بے دردی سے ضائع کر رہی ہے۔ انہوں نے ملک میں فوری طور پر چھوٹے اور بڑے آبی ذخیروں کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے طریقوں کو بھی پائیداربنانا ہوگا۔

سید فخر امام نے کہاکہ ہمیں اپنی ترجیحات کا رخ روایتی فصلات کے ساتھ ساتھ ہائی ویلیوکراپس کی طرف بھی موڑنا ہوگا جس کی برآمد سے ملک کیلئے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے گا۔ ملک میں زرعی تعلیم‘ تحقیق اور توسیع کی لائل پور ماڈل کی تکون کو ازسرنوبحال کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سید فخر امام نے کہا کہ ا س ماڈل سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

آسٹریلین ڈپٹی ہائی کمشنر مسٹر جیورک جف زک نے کہا کہ ان کی حکومت اور عوام پانی کے حوالے سے بہت سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں اور مختلف پراجیکٹس کے ذریعے اپنے تجربات اور مشاہدات کا پاکستانی ماہرین کے ساتھ تبادلہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک دہائی قبل آسٹریلیا کو بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جس سے تمام شعبہ ہائے زندگی کی کارکردگی متاثر ہوئی تاہم آسٹریلوی حکومت نے پانی کے حوالے سے عوامی شعور اس قدر بڑھا دیا ہے کہ مستقبل میں ایسے چیلنج سے بہتر طور پر نبردآزما ہوسکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ آسٹریلوی ادارے پاکستان میں ایگروبیسڈ انڈسٹری ‘ ایگریکلچرمارکیٹ اورہارٹیکلچرکراپس کے جملہ کسانوں کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے کوشاں ہیں۔کانفرنس سے یو ایس پی کیس کی ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر نینسی ایلن نے بھی خطاب کیا۔